بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سجدہ تلاوت کی تعداد یاد نہ ہو تو کیا حکم ہے؟


سوال

سجدہ تلاوت کی تعداد معلوم نہ ہو توکیا کریں ؟

 

جواب

 آیت سجدہ کی تلاوت کرنے یا سننے سے سجدۂ تلاوت  واجب  ہوجاتا ہے ، اگر کئی سجدے ذمہ میں لازم ہوچکے ہوں اور تعداد حتمی طور پر یاد نہ ہو تو   یہ ضروری ہے کہ غور وفکر کرکے غالب گمان سے  اندازہ لگایا جائے  اور پھر  اس تعداد سے احتیاطًا کچھ   زیادہ تعداد مقرر کرکے  اس کے مطابق سجدہ تلاوت ادا کرلیے جائیں  ۔ نیز  تاخیر کی وجہ سے  سجدہ تلاوت معاف نہیں ہوں گے۔

فتاوی شامی میں ہے:

" وتجب ... (على من كان) متعلق بيجب (أهلاً لوجوب الصلاة)؛ لأنها من أجزائها (أداء) كالأصم إذا تلا، (أو قضاءً) كالجنب والسكران والنائم، (فلا تجب على كافر وصبي ومجنون وحائض ونفساء قرءوا أو سمعوا)؛ لأنهم ليسوا أهلاً لها، (وتجب بتلاوتهم) يعني المذكورين (خلا المجنون المطبق) فلا تجب بتلاوته؛ لعدم أهليته.

(قوله: وتجب بتلاوتهم) أي وتجب على من سمعهم بسبب تلاوتهم ح. (قوله: يعني المذكورين) أي الأصم والنفساء وما بينهما (قوله: خلا المجنون) هذا ما مشى عليه في البحر عن البدائع. قال في الفتح: لكن ذكر شيخ الإسلام أنه لايجب بالسماع من مجنون أو نائم أو طير؛ لأن السبب سماع تلاوة صحيحة، وصحتها بالتمييز ولم يوجد، وهذا التعليل يفيد التفصيل في الصبي، فليكن هو المعتبر إن كان مميزاً وجب بالسماع منه وإلا فلا اھ  ـ واستحسنه في الحلية". (2/ 107)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200562

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں