بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سفر کے دوران قضا شدہ نمازوں کا حضر میں پڑھنے کا حکم


سوال

میری سفر کے دوران نماز ظہر اور عصر قضاء ہو گئی کیا میں گھر آ کر قصر نماز پڑھوں گا یا پوری نماز پڑھنی پڑے گی؟

جواب

صورت مسئولہ میں  سفر كے دوران بھی جان بوجھ کر نمازیں قضا کرنا جائز نہیں ہے، نماز قضا کرنا شدید گناہ کا باعث ہے،  البتہ جو نمازیں کسی وجہ سے سفرِ شرعی کے دوران قضا ہوگئی ہوں تو گھر آ کر  ظہر اور  عصر کی فرض نماز قصر کے ساتھ دو، دو رکعت قضا پڑھی جائے گی۔اورسنتوں کی قضا نہیں ہوگی، الا یہ کہ فجر کی نماز سفر میں قضا ہوگئی اور  اپنے شہر میں پہنچ کر  اسی دن زوال سے پہلے پہلے فجر کی نماز قضا کی جارہی ہو تو فجر کی سنتیں بھی قضا کی جائیں گی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے:

"(والمعتبر في تغيير الفرض آخر الوقت) وهو قدر ما يسع التحريمة (فإن كان) المكلف (في آخره مسافراً وجب ركعتان وإلا فأربع)؛ لأنه المعتبر في السببية عند عدم الأداء قبله.

(قوله: والمعتبر في تغيير الفرض) أي من قصر إلى إتمام وبالعكس (قوله: وهو) أي آخر الوقت قدر ما يسع التحريمة، كذا في الشرنبلالية والبحر والنهر، والذي في شرح المنية تفسيره بما لايبقى منه قدر ما يسع التحريمة وعند زفر بما لايسع فيه أداء الصلاة (قوله: وجب ركعتان) أي وإن كان في أوله مقيماً وقوله: وإلا فأربع أي وإن لم يكن في آخره مسافراً بأن كان مقيماً في آخره فالواجب أربع. قال في النهر: وعلى هذا قالوا: لو صلى الظهر أربعاً ثم سافر أي في الوقت فصلى العصر ركعتين ثم رجع إلى منزله لحاجة فتبين أنه صلاهما بلا وضوء صلى الظهر ركعتين والعصر أربعاً؛ لأنه كان مسافراً في آخر وقت الظهر ومقيماً في العصر (قوله: لأنه) أي آخر الوقت. (قوله: عند عدم الأداء قبله) أي قبل الآخر.والحاصل: أن السبب هو الجزء الذي يتصل به الأداء أو الجزء الأخير إن لم يؤد قبله وإن لم يؤد حتى خرج الوقت فالسبب هو كل الوقت. قال في البحر: وفائدة إضافته إلى الجزء الأخير اعتبار حال المكلف فيه، فلو بلغ صبي أو أسلم كافر أو أفاق مجنون، أو طهرت الحائض أو النفساء في آخره لزمتهم الصلاة ولو كان الصبي قد صلاها، في أوله وبعكسه لو جن أو حاضت أو نفست فيه لفقد الأهلية عند وجود السبب، وفائدة إضافته إلى الكل عند خلوه عن الأداء أنه لايجوز قضاء عصر الأمس في وقت التغير وتمام تحقيقه في كتب الأصول."

(کتاب الصلاۃ، باب صلاة المسافر، ج: 2، صفحہ: 131، ط: ایچ، ایم، سعید)

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144312100636

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں