بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سفر کے دوران ہوائی جہاز میں نماز کا حکم


سوال

 اگر بندہ جہاز میں سفر کرے، سفر طویل ہونے کی وجہ سے دو یا تین نمازوں کا وقت ہوجائے، جہاز میں کہیں کھڑے ہو کر رکوع اور سجدہ کر کے نماز پڑھنا بھی ممکن نہ ہو۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا ان نمازوں کو ادا کیا جائے گا یا قضا کیا جائے گا؟ ادا اور قضا کی ترتیب کیا ہو گی؟

جواب

ہوائی جہاز میں فرض، واجب، سنت اور نفل نماز پڑھنا جائز ہے، البتہ ہوائی جہاز میں نماز ادا کرنے میں بھی استقبالِ قبلہ اور قیام شرط ہے، ان دو شرطوں میں سے کوئی ایک شرط اگر عذر کے بغیر فوت ہوجائے تو فرض اور واجب نماز ادا نہیں ہوگی، البتہ سنن ونوافل قیام کے بغیر بھی ادا ہوجاتی ہیں۔

اگر ہوائی جہاز میں فرض یا واجب نماز قبلہ رو، کھڑے ہوکر، فرش پر رکوع، سجدے کے ساتھ ادا کرنا ممکن نہ ہو تو فی الحال ’’تشبہ بالمصلین‘‘ (نمازیوں کی مشابہت اختیار) کرلے یعنی سیٹ پر بیٹھے بیٹھے ہی اشارے سے نماز پڑھ لے، پھر ایئرپورٹ پہنچنے پر جس نماز کا وقت باقی ہو اُس کا اعادہ کرلے اور باقی نمازوں کی قضا کرلے۔

’’و في الخلاصة و فتاوى قاضي خان و غيرهما: الأسير في يد العدو إذا منعه الكافر عن الوضوء و الصلاة يتيمم و يصلي بالإيماء ثم يعيد إذا خرج، و كذا لو قال لعبده: إن توضأت حبستك أو قتلتك، فإنه يصلي بالتيمم ثم يعيد كالمحبوس؛ لأن طهارة التيمم لم تظهر في منع وجوب الإعادة، و في التجنيس: رجل أراد أن يتوضأ فمنعه إنسان عن أن يتوضأ بوعيد، قيل: ينبغي أن يتيمم و يصلي ثم يعيد الصلاة بعد ما زال عنه؛ لأن هذا عذر جاء من قبل العباد فلا يسقط فرض الوضوء عنه اهـ. فعلم منه أن العذر إن كان من قبل الله تعالى لا تجب الإعادة و إن كان من قبل العبد وجبت الإعادة.‘‘

(البحر الرائق، کتاب الطهارة، باب التیمم، 1/ 149، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144110201048

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں