بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ساس کے پستان کو چھونے سے حرمتِ مصاہرت


سوال

 ایک شخص نے اپنی ساس کے پستان کے حصہ کو انگلی سے بہت ہی ہلکا سا چھوا ،اور اڑتی نظر سے دیکھا پستان کے حصہ کو ،تو فوراً ساس پیچھے کو ہٹ گئی۔ اور چھونےسے نہ ساس کو شہوت ہوئی ،اورنہ داماد کے آلہ تناسل میں انتشار پیدا ہوا،دونوں بہت زیادہ پریشان ہیں کہ کیا کریں؟ داماد کا نکاح باقی ہے یا نہیں  ؟آپ کے ایک فتویٰ میں پڑھا تھا کہ نکاح ختم ہونے کے لئے ضروری ہے کہ سائل اپنی بیوی سے یوں کہہ دے کہ میں نے تمہیں چھوڑدیا ،آزادکردیا،تو نکاح ختم ہوجائے گا۔ براۓ کرم تفصیل سے جواب دیں ۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں  اگر  مذکورہ شخص نے اپنی ساس کے پستان کو  ایسے کپڑے کے اوپر سے چھویا جس سے اس کے بدن کی گرمی محسوس نہ ہوئی، یا ایسا کپڑا تو نہ تھا لیکن چھوتے وقت داماد اور ساس دونوں میں سے کسی کو بھی شہوت نہ تھی، تو اس سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہ ہوئی، اور مذکورہ شخص کے اپنی بیوی کے ساتھ نکاح پر کوئی فرق نہ پڑا۔  تاہم مذکورہ شخص کو صدقِ دل سے استغفار بھی کرنا چاہیے اور آئندہ اس طرح کی نوبت سے اپنے آپ کو بچائے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وكما تثبت هذه الحرمة بالوطء تثبت بالمس والتقبيل والنظر إلى الفرج بشهوة، كذا في الذخيرة. ثم المس إنما يوجب حرمة المصاهرة إذا لم يكن بينهما ثوب، أما إذا كان بينهما ثوب فإن كان صفيقا لا يجد الماس حرارة الممسوس لا تثبت حرمة المصاهرة. ولو مس شعرها بشهوة إن مس ما اتصل برأسها تثبت وإن مس ما استرسل لا يثبت. والشهوة تعتبر عند المس والنظر حتى لو وجدا بغير شهوة ثم اشتهى بعد الترك لا تتعلق به الحرمة. وحد الشهوة في الرجل أن تنتشر آلته أو تزداد انتشارا إن كانت منتشرة، كذا في التبيين. وهو الصحيح، كذا في جواهر الأخلاطي. وبه يفتى، ... هذا الحد إذا كان شابا قادرا على الجماع فإن كان شيخا أو عنينا فحد الشهوة أن يتحرك قلبه بالاشتهاء إن لم يكن متحركا قبل ذلك ويزداد الاشتهاء إن كان متحركا، كذا في المحيط. وحد الشهوة في النساء والمجبوب هو الاشتهاء بالقلب والتلذذ به إن لم يكن وإن كان فازدياده، كذا في شرح النقاية للشيخ أبي المكارم. ووجود الشهوة من أحدهما يكفي وشرطه أن لا ينزل حتى لو أنزل عند المس أو النظر لم تثبت به حرمة المصاهرة. ويشترط أن تكون المرأة مشتهاة، كذا في التبيين. والفتوى على أن بنت تسع محل الشهوة لا ما دونها."

(کتاب النکاح، الباب الثالث، ج:1، ص:374/375، ط:مكتبه رشيديه)

فتاوی شامی میں ہے:

"وثبوت الحرمة بلمسها مشروط بأن يصدقها، ويقع في أكبر رأيه صدقها وعلى هذا ينبغي أن يقال في مسه إياها لا تحرم على أبيه وابنه إلا أن يصدقاه أو يغلب على ظنهما صدقه".

(کتاب النکاح، فصل فى المحرمات، ج:3، ص:33، ط: ايچ ايم سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406102214

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں