بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رویت ہلال میں مرکزی کمیٹی کا اعتبارہے یا صوبائی کمیٹی کا؟


سوال

ہمارے ہاں خیبر پختونخوا ہ میں ہر سال عید اور روزہ کے چاند کے معاملے میں صوبائی اور وفاقی حکومت کا اختلاف ہوتا ہے، صوبہ کے بعض علاقوں میں روزہ یا عید ہوتی ہے اور بعض علاقوں میں نہیں ہوتی، تو میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ چاند کے دیکھنے اور نہ دیکھنے کے معاملے میں ہم صوبائی حکومت کا ساتھ دیں یا مرکزی حکومت کا؟

جواب

واضح رہے کہ اگر  کسی علاقے میں حکومت کی طرف سے مقرر کردہ  کمیٹی اس پورے علاقے   یا پورے ملک  کے لیے ہو  اور وہ شرعی شہادت  موصول ہونے پر  چاند نظر آنے کا اعلان کردے تو اس حدود میں جن لوگوں تک وہ اعلان معتبراور یقینی  ذرائع سے پہنچ جائےان کے لیے اس  پر عمل  کرنا واجب ہوگا،  چوں کہ  مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی  قاضی شرعی کی  حیثیت    رکھتی ہے، لہذا شہادت موصول ہونے پر اگر وہ اعلان کردے تو ملک میں  جن لوگوں تک یہ اعلان معتبر ذرائع سے پہنچ جائے ، ان پر روزہ رکھنا یا عید کرنا لازم ہوگا۔     مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے علاوہ غیر مجاز ،نجی کمیٹیاں،صوبائی کمیٹیاں رؤیت ہلال کا فیصلہ کرنے میں خود مختار نہیں ہیں، اور ان کا فیصلہ دوسرے لوگوں کے لیے قابل عمل نہیں ہے، اس لیےکہ ان کو ولایتِ عامہ حاصل نہیں ہے، اور ان کا اعلان عام لوگوں کے لیے حجت نہیں ہے،لہذا صورت مسئولہ میں مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے  اعلان کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے ،  صوبائی کمیٹی کا فیصلہ معتبر نہیں ہے، ہاں اگر کوئی شخص خود اپنی آنکھوں سے چاند دیکھ لے تو اس پر روزہ رکھنا لازم ہوگا، چاہے حکومت کی طرف سے اعلان ہو یا نہ ہو۔

فتح الباری میں ہے:

"إلا أن يثبت عند ‌الإمام ‌الأعظم فيلزم الناس كلهم لأن البلاد في حقه كالبلد الواحد إذ حكمه نافذ في الجميع."

(ص: 123،ج:4،کتاب الصیام،باب قول النبي صلى الله عليه وسلم إذا رأيتم الهلال فصوموا،ط: دار المعرفة)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"ولو شهدوا أن قاضي بلدة كذا شهد عنده اثنان برؤية الهلال في ليلة كذا وقضى بشهادتهما جاز لهذا القاضي أن يحكم بشهادتهما؛ لأن قضاء القاضي حجة وقد شهدوا به كذا في فتح القدير."

(ص:199،ج:1،کتاب الصوم،الباب الثاني في رؤية الهلال،ط:دار الفكر )

فتاویٰ شامی میں ہے:

"رأى مكلف هلال رمضان أو الفطر ورد قوله بدليل شرعي صام مطلقا وجوبا وقيل ندبا فإن أفطر قضى فقط فيهما لشبهة الرد."

(ص:384،ج:2،کتاب الصوم،ط:سعید)

مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ "زبدۃ المقال فی رؤیۃ الہلال" میں تحریر فرماتے ہیں:

"إذا ثبت الصوم أو الفطر عند حاکم تحت قواعد الشرع بفتوی العلماء أو عند واحد أو جماعة من العلماء الثقات ولاّهم رئیس المملکة أمر رؤیة الهلال، وحکموا بالصوم أو الفطر  ونشروا حکمهم هذا في رادیو، یلزم علی من سمعها من المسلمین العمل به في حدود ولایتهم، وأما فیما وراء حدود ولایتهم فلا بد من الثبوت عند حاکم تلک الولایة بشهادة شاهدین علی الرؤیة أو علی الشهادة أو علی حکم الحاکم أو جاء الخبر مستفیضاً، لأن حکم الحاکم نافذ في ولایته دون ما وراءها."

(زبدۃ المقال فی رؤیة الھلال،بحواله  خیر الفتاوی جلد 4 ص: 118ِط: مکتبة امدادیہ)

جواہر الفقہ میں ہے:

"اور  جس طرح  ایک شہر کے قاضی یا ہلال کمیٹی کا فیصلہ اس شہر اور اس کے مضافات کے لیے واجب العمل ہے اسی طرح اگر کوئی قاضی یا مجسٹریٹ یا ہلال کمیٹی  پورے ضلع یا صوبہ یا پورے ملک  کے لیے ہو تو اس کا فیصلہ  اپنے اپنے حدود ولایت میں واجب العمل ہوگا۔"

(مسئلہ رؤیت ہلال جلد ۳ ص:۴۸۴ ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144409100003

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں