روزہ فاسد ہونے کے بعد قصداً کھانے پینے سے کفارہ کا حکم
سوال
روزہ کی حالت میں اپنے عضو خاص کو عورت کے شرمگاہ کے ساتھ ٹچ کرنے سے جب کہ اندر داخل نہ کیا ہو، اگر انزال ہوجائے تو روزہ فاسد ہوگیا اب فاسد ہونے کے بعد اگر کچھ کھالیا جان بوچ کر تو کفارہ لازم ہوگی یا اب بھی صرف قضاء لازم ہوگا۔ رہنمائی فرمائیں۔
جواب
صورتِ مسئولہ میں روزہ فاسد ہونے کے بعد مذکورہ شخص پر رمضان کے احترام میں کھانے پینے سے احتراز کرنا واجب ہے، اگر مذکورہ شخص باوجودے کہ قصداً کھاپی لے تو اس پر روزے کی صرف قضاء ہی ہوگی، کفارہ لازم نہیں ہوگا، لیکن بہت بڑا گناہ گار ہوگا۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(والأخيران يمسكان بقية يومهما وجوبا على الأصح) لأن الفطر قبيح وترك القبيح شرعا واجب (كمسافر أقام وحائض ونفساء طهرتا ومجنون أفاق ومريض صح) ومفطر ولو مكرها أو خطأ (وصبي بلغ وكافر أسلم وكلهم يقضون)...
كل من وجب عليه الصوم لوجود سبب الوجوب والأهلية ثم تعذر عليه المضي بأن أفطر متعمدا أو أصبح يوم الشك مفطرا ثم تبين أنه من رمضان أو تسحر على ظن أن الفجر لم يطلع ثم تبين طلوعه، فإنه يجب عليه الإمساك تشبها اهـ".
"احتلم أو أنزل بنظر أو ذرعه القيء (فظن أنه أفطر فأكل عمدا) للشبهة ... فلا كفارة مطلقا على المذهب لشبهة
(قوله: للشبهة) علة للكل قال في البحر: وإنما لم تجب الكفارة بإفطاره عمدا بعد أكله أو شربه أو جماعه ناسيا؛ لأنه ظن في موضع الاشتباه بالنظير، وهو الأكل عمدا؛ لأن الأكل مضاد للصوم ساهيا أو عامدا فأورث شبهة وكذا فيه شبهة اختلاف العلماء، فإن مالكا يقول بفساد صوم من أكل ناسيا وأطلقه فشمل ما لو علم أنه لم يفطره بأن بلغه الحديث أو الفتوى أو لا وهو قول أبي حنيفة، وهو الصحيح وكذا لو ذرعه القيء وظن أنه يفطره فأفطر، فلا كفارة عليه لوجود شبهة الاشتباه بالنظير فإن القيء والاستقاء متشابهان؛ لأن مخرجهما من الفم وكذا لو احتلم للتشابه في قضاء الشهوة وإن علم أن ذلك لا يفطره فعليه الكفارة؛ لأنه لم توجد شبهة الاشتباه ولا شبهة الاختلاف اهـ".
اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔