بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

رشوت دیئے بغیر اگر اپنا حق نہ ملتا ہوتو کیا حکم ہے ؟


سوال

حدیث شریف میں ہے کہ رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں ، مگر اک ایسا مقام بھی آتا ہے جہاں آپ رشوت نہ دیں تو آپ کامسئلہ حل نہیں ہوگا، میں اک جگہ نوکری کے لیے درخواست دیتا ہوں وہاں کے ٹیسٹ اور سارے امتحانات پاس کر لیتا ہوں اور اس کا حقدار بھی بن جاتا ہوں مگر متعلقہ آفیسر مجھ سے اس کی رقم مانگتا ہے بطور رشوت اگر میں نے نہ دی تو وہ ریجیکٹ کر دے گا اگر دی تو میں گناہ گار، اس طرح کے موقع پر کیا کرنا چاہیے؟

جواب

صورت مسئولہ میں رشوت لینے اور دینے والے پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت  فرمائی ہے، چناں چہ رشوت لینا اور دینا دونوں ناجائز ہیں، اور حتی الامکان رشوت دینے سے بھی بچنا واجب ہے، البتہ اگر کوئی  جائز کام تمام قانونی تقاضوں کو پورا کرنے اور حق ثابت ہونےکے باوجود صرف رشوت نہ دینے کی وجہ سے  نہ ہو رہا ہو تو ایسی صورت میں حق دار  شخص کے لیے رشوت دینا گناہ نہیں ہوگا۔البتہ رشوت لینے والا گناہ گار ہوگا، اور اس پر وہ رقم واپس کرنا لازم ہوگا۔

لہذا اگر سائل کسی جگہ ملازمت کی اہلیت رکھتا ہو اور تمام تقاضے مکمل کرچکا ہو اس کے باوجود رشوت کےبغیر ملازمت نہ دی جارہی ہو تو اس صورت میں سائل مجبوراً رشوت دینے سے گناہ گار نہیں ہوگا، البتہ رشوت لینے والا گناہ گار ہوگا۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما، قال: «لعن رسول الله ‌الراشي والمرتشي» رواه أبو داود، وابن ماجه.

 (وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما) : بالواو (قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي» ) : أي: معطي الرشوة وآخذها، وهى الوصلة إلى الحاجة بالمصانعة. وأصله من الرشاء الذي يتوصل به إلى الماء، قيل: الرشوة ما يعطى لإبطال حق، أو لإحقاق باطل، أما إذا أعطى ليتوصل به إلى حق، أو ليدفع به عن نفسه ظلماً فلا بأس به، وكذا الآخذ إذا أخذ ليسعى في إصابة صاحب الحق فلا بأس به، لكن هذا ينبغي أن يكون في غير القضاة والولاة ; لأن السعي في إصابة الحق إلى مستحقه، ودفع الظالم عن المظلوم واجب عليهم، فلايجوز لهم الأخذ عليه."

(کتاب الأمارۃ و القضاء، باب رزق الولاۃ و هدایاهم،  ج :7،ص:295، دار الکتب العلمیۃ)

فتاوی شامی میں ہے:

"دفع المال للسلطان الجائر لدفع الظلم عن  نفسه و ماله و لاستخراج حقّ له ليس برشوة يعني في حق الدافع اهـ."

 (کتاب الحظر والإباحة، فصل في البیع،ج:6،ص:423، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101743

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں