بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رِنگ کے کھیل کا شرعی حکم


سوال

تہواروں کے موقع پر رِنگ والا کھیل کھیلا جاتا ہے ،اس کا شرعی حکم کیا ہے ؟

جواب

 کسی بھی قسم کے کھیل  کے جائز ہونے  کے لیے اس کھیل میں  درج ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے:

1۔  وہ کھیل بذاتِ خود جائز ہو، اس میں کوئی ناجائزبات نہ ہو۔

2۔اس کھیل میں کوئی دینی یا دنیوی منفعت  ہو، مثلًا:  جسمانی   ورزش  وغیرہ ، محض  لہو  و لعب یا وقت گزاری  کے  لیے نہ کھیلا جائے۔

3۔  کھیل  میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جاتا  ہو، مثلاً جوا اور تصویر سازی ، موسیقی  وغیرہ۔

4۔۔ کھیلنے  والا اس کھیل میں اس قدر منہمک نہ ہوجاۓ  کہ شرعی فرائض  مثلا نماز وغیرہ میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو۔

لہذا کسی بھی کھیل میں مذکورہ شرائط میں سے کسی بھی ایک شرط کی خلاف ورزی ہو تو وہ کھیل کھیلنا  شرعادرست نہیں  ہے،بلکہ  ایسے کھیل  سے اجتناب  کرنا ضروری ہے، لہذا صورت مسئولہ میں رِنگ کے کھیل میں  نہ ہی کسی قسم کا دینی فائدہ ہے اور نہ ہی دنیاوی فائدہ ہے، ساتھ  ساتھ بسا اوقات مذکورہ کھیل میں  جوا بھی پایا جاتا ہے اس طور پر کہ  اس کھیل میں  شریک ہونے والے سے  فیس/رقم  لی جاتی ہے، اس کے بعد صحیح نشانہ/ہدف   پر رِنگ  ڈال دینے  کی صورت میں  انعام ملتاہے اور اگرصحیح نشانہ/ ہدف پر رِنگ نہیں ڈالا تو کسی بھی قسم کا انعام نہیں ملتا، جو کہ جوا اور قمار ہے، لہذاان خرابیوں کے سبب  مذکورہ کھیل سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ."[المائدة :۹٠]

ترجمہ :"اے ایمان والو بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہیں سو ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم کو فلاح ہو۔"

  روح المعانی میں ہے:

"ولهو الحديث على ما روي عن الحسن: كل ما شغلك عن عبادة الله تعالى وذكره من السمر والأضاحيك والخرافات والغناء ونحوها".

 ( سورۃ لقمان،11 / 66،  ط:دار الکتب العلمیة)

أحکام القرآن  میں ہے:

"ولا خلاف بين أهل العلم في تحريم القمار وأن المخاطرة من القمار، قال ابن عباس: إن المخاطرة قمار، وإن أهل الجاهلية كانوا يخاطرون على المال، والزوجة، وقد كان ذلك مباحاً إلى أن ورد تحريمه".     

(سورۃ البقرۃ، باب تحریم المیسر،1/ 398، ط: دار الکتب العلمیۃ بیروت - لبنان)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: لأنه يصير قماراً)؛ لأن القمار من القمر الذي يزداد تارةً وينقص أخرى، وسمي القمار قماراً؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص".

 ( کتاب الحظر والاباحۃ،403/6،ط :سعید)

تکملۃ فتح الملهم میں ہے:

"فالضابط في هذا . . . أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح  مفيد في المعاش ولا المعاد حرام أو مكروه تحريماً، . . . وما كان فيه غرض  ومصلحة دينية أو دنيوية، فإن ورد النهي  عنه من الكتاب أو السنة . . . كان حراماً أو مكروهاً تحريماً، ... وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس، فهو بالنظر الفقهي علي نوعين ، الأول ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه ومفاسده أغلب علي منافعه، وأنه من اشتغل به الهاه عن ذكر الله  وحده وعن الصلاة والمساجد التحق ذلك بالمنهي عنه لاشتراك العلة فكان حراماً أو مكروهاً، والثاني ماليس كذلك  فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التلهي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح،  بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه . . . وعلي هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل علي معصية أخري، وما لم يؤد الانهماك فيها إلى الاخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه."

(تکملة فتح الملهم، قبیل کتاب الرؤیا،435/4، ط: دارالعلوم کراچی)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503100636

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں