بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رمضان وعید کے لیے مقامی رویت ہلال کمیٹی کي اتباع کا حکم


سوال

 کیا پشاور اور اس کے مضافات والوں کے لیے مرکزی کمیٹی کے مقابلے میں مقامی کمیٹی کے اعلان کے مطابق روزہ رکھنا جائز ہے ؟ جب کہ یہاں کے عوام و خواص کی اکثریت اسی پر عمل پیرا ہیں، خواص سے مراد یہاں کے معتمد علماء حق ہیں، اگر جائز نہیں تو چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کرنا کیا لازم ہوگا؟

جواب

 واضح رہے کہ کسی علاقے میں کوئی قاضی یا حکومت کی طرف سے مقرر کردہ  کمیٹی پورے  ضلع یا صوبے  یا پورے ملک  کے لیے ہو  اور وہ شرعی شہادت  موصول ہونے پر  چاند نظر آنے کا اعلان کردے تو اس کے فیصلے پر اپنی حدود اور ولایت میں  ان لوگوں پرجن تک فیصلہ اور اعلان یقینی اور معتبر ذریعے سے پہنچ جائے  عمل  کرنا واجب ہوگا،  چوں کہ  مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی  قاضی شرعی کی  حیثیت    رکھتی ہے، لہذا شہادت موصول ہونے پر اگر وہ اعلان کردے تو ملک میں  جن لوگوں تک یہ اعلان معتبر ذرائع سے پہنچ جائے ، ان پر روزہ رکھنا یا عید کرنا لازم ہوگا۔     مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے علاوہ غیر مجاز ، پرائیویٹ کمیٹیاں رؤیت ہلال کا فیصلہ کرنے میں خود مختار نہیں ہیں، اور ان کا فیصلہ دوسرے لوگوں کے لیے قابل عمل نہیں ہے، اس لیےکہ ان کو ولایتِ عامہ حاصل نہیں ہے، اور ان کا اعلان عام لوگوں کے لیے حجت نہیں ہے؛لہذا صورت مسئولہ میں رؤیت ہلال کمیٹی کے  اعلان کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے،مقامی رؤیتِ ہلال کمیٹی کا فیصلہ معتبر نہیں ہے،ہاں اگر کوئی شخص خود اپنی آنکھوں سے چاند دیکھ لے تو اس پر روزہ رکھنا لازم ہو گا۔

نوٹ:اگر کوئی   شخص مقامی غیر سرکاری رؤیتِ ہلال کمیٹی کی اتباع کرکے عید منالے،اور روزہ نہ رکھے ،جب کہ مرکزی کمیٹی عید کے چاند کا اعلان ایک دن بعد کرے تو مرکزی کمیٹی کےاعلان کے اعتبار سے  چھوٹے ہوئے ایک روزے کی قضا لازم ہوگی۔

نیل الاوطا ر میں ہے:

"وثانيها: أنه لا يلزم أهل بلد رؤية غيرهم إلا أن يثبت ذلك عند الإمام الأعظم فيلزم كلهم لأن البلاد في حقه كالبلد الواحد إذ حكمه نافذ في الجميع، قاله ابن الماجشون."

(کتاب الصیام، باب الهلال إذا رآه أهل بلدة هل يلزم بقية البلاد الصوم، ج:4، ص: 230 ط: دارالحدیث، مصر)

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

"الفتاوی النسفیة: سئل عن قضاء القاضي برؤیة هلال شهر رمضان بشهادة شاهدین عند الاشتباه في مصر، هل یجوز لأهل مصر آخر العمل بحکمهم؟ فقال:لا، ولایکون مصرآخر تبعاً لهذا المصر، إنما سکان هذا المصر وقراها یکون تبعاً له."

(کتاب الصوم، الفصل الثاني فیما یتعلق برؤیة الهلال، ج:2، ص: 356، ط: ادارۃ القرآن)

مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ "زبدۃ المقال فی رؤیۃ الہلال" میں تحریر فرماتے ہیں:

"إذا ثبت الصوم أو الفطر عند حاکم تحت قواعد الشرع بفتوی العلماء أو عند واحد أو جماعة من العلماء الثقات ولاّهم رئیس المملکة أمر رؤیة الهلال، وحکموا بالصوم أو الفطر  ونشروا حکمهم هذا في رادیو، یلزم علی من سمعها من المسلمین العمل به في حدود ولایتهم، وأما فیما وراء حدود ولایتهم فلا بد من الثبوت عند حاکم تلک الولایة بشهادة شاهدین علی الرؤیة أو علی الشهادة أو علی حکم الحاکم أو جاء الخبر مستفیضاً، لأن حکم الحاکم نافذ في ولایته دون ما وراءها."

(زبدۃ المقال فی رؤیة الھلال,بحواله خیر الفتاوی، ج:4، ص: 118ِط: مکتبة امدادیة)

جواہر الفقہ میں ہے:

"اور  جس طرح  ایک شہر کے قاضی یا ہلال کمیٹی کا فیصلہ اس شہر اور اس کے مضافات کے لیے واجب العمل ہے اسی طرح اگر کوئی قاضی یا مجسٹریٹ یا ہلال کمیٹی  پورے ضلع یا صوبہ یا پورے ملک  کے لیے ہو تو اس کا فیصلہ  اپنے اپنے حدود ولایت میں واجب العمل ہوگا۔"

(مسئلہ رؤیت ہلال جلد ۳ ص:۴۸۴ ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144412101102

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں