بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی کس پر واجب ہے ؟


سوال

میں ایک پرائیویٹ ملازم ہوں تنخواہ 22ہزار روپے ہےمیرے پاس نقدی نہیں ہے البتہ بیوی کےپاس  ڈیڑھ تولہ سونا ہےتنخواہ گھریلو اخراجات میں خرچ ہوجاتی ہے میرے اوپر تقریباً 80 ہزار قرض ہے  بھائی  پرائیویٹ ملازم ہے25ہزار تنخواہ ہے البتہ اس کے اوپر قرض نہیں ہے والد صاحب   ایک چھوٹی سی دکان چلاتے  ہیں جس سے گھر   کا خرچہ چلتا ہے ، اب بھائی کی خواہش ہے کہ ہم اکٹھے ہو کر تینوں میں سے کسی کے نام پر قربانی کریں ہم تینوں میں سے کس پر قربانی واجب ہو گی ۔

جواب

واضح رہے کہ قربانی واجب ہونے کا نصاب وہی ہے جو صدقۂ فطر کے واجب ہونے کا نصاب ہے، یعنی جس عاقل، بالغ ، مقیم ، مسلمان  مرد یا عورت کی ملکیت میں قربانی کے ایام میں قرض کی رقم منہا کرنے بعد ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی، یا اس کی قیمت کے برابر رقم ہو،  یا تجارت کا سامان، یا ضرورت سےزائد اتنا سامان  موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو، یا ان میں سے کوئی ایک چیز یا ان پانچ چیزوں میں سے بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر  ہوتو ایسے مرد وعورت پر قربانی واجب ہے۔

قربانی  واجب ہونے کے لیے نصاب کےبقدر مال ، رقم یا ضرورت سے  زائد سامان پر سال گزرنا شرط نہیں ہے، اور تجارتی ہونا بھی شرط نہیں ہے، ذی الحجہ کی بارہویں تاریخ کے سورج غروب ہونے سے پہلے  اگر نصاب کا مالک ہوجائے تو ایسے شخص پر قربانی  واجب ہے۔

ضرورتِ اصلیہ سے مراد وہ ضرورت ہے جو جان اور آبرو سے متعلق ہو یعنی اس کے پورا نہ ہونے سے  جان یا عزت وآبرو جانے کا اندیشہ ہو، مثلاً: کھانا ، پینا، پہننے کے کپڑے، رہنے کا مکان، اہلِ صنعت وحرفت کے لیے ان کے پیشہ کے اوزار ضرورتِ اصلیہ میں داخل ہیں۔

اور ضرورت سے زائد سامان سے مراد یہ ہے کہ وہ چیزیں انسان کے استعمال میں نہ ہوں، اور  ہر  انسان کی ضروریات اور حاجات عموماً دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں ، اور راجح قول کے مطابق ضروریات کو پوری کرنے کے لیے  اشیاء کو جائز طریقہ سے اپنی ملکیت میں رکھنے کی کوئی خاص  تعداد شریعت کی طرف سے مقرر نہیں ہے، بلکہ جو چیزیں انسان کے استعمال میں ہوں اور انسان کو اس کے استعمال کی حاجت پیش آتی ہو اور وہ اشیاء تجارت کے لیے نہ ہوں تو  ضرورت اور حاجت کے سامان میں داخل ہے۔

لہذا جو چیزیں ان انسان کے استعمال میں نہ ہوں اور اس کو ان کی حاجت بھی نہ ہوتی ہو تو وہ ضرورت سے زائد سامان میں شامل ہے، قربانی کے نصاب میں اس کی مالیت کو شامل کیا جائے گا۔

صورت مسئولہ میں سائل  کی اہلیہ کے پاس اگر ڈیڑھ تولہ سونے کے علاوہ   کچھ رقم موجودہو تو  سائل کی اہلیہ پر قربانی واجب ہو گی اگر ڈیڑھ تولہ سونے کے علاوہ رقم یا  ضرورت کے علاوہ کوئی مال موجود نہیں ہے تو قربانی واجب نہیں ہوگی ، اسی طرح سائل کے بھائی کے پاس  اگر اتنا مال موجود ہو  جسکی مالیت ساڑھے باون تو لہ چاندی کے برابر   ہو تو اس پر قربانی واجب ہو گی ،اسی طرح سائل کے والد کے پاس جو کاروبار ہے، اس کی مالیت اگر ساڑھے باون تولے چاندی یا اس سے زائد ہے تو   والدپر قربانی واجب ہے ۔

اور یہ بات یا د رہے کہ قربانی جس پر واجب  ہے تو اسی کی طرف سے قربانی ہو گی ،تین آدمی ایک حصے میں ایک ساتھ شریک نہیں ہو سکتے ہیں ۔

الدر المختار و حاشيہ ابن عابدين میں ہے :

''وشرائطها: الإسلام والإقامة واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر).

(قوله: واليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضاً يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية، ولو له عقار يستغله فقيل: تلزم لو قيمته نصاباً، وقيل: لو يدخل منه قوت سنة تلزم، وقيل: قوت شهر، فمتى فضل نصاب تلزمه. ولو العقار وقفاً، فإن وجب له في أيامها نصاب تلزم."

 (6/ 312،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100514

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں