بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرآن مجید کی آیت کو بطور مزاح پڑھنا


سوال

قرآن کی آيت"فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ ۚ إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا ۚ" آج کل مدارس میں طلباء"إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ نَارًا "کی جگہانا اعتدنا لطالبين دالاًبطور ہنسی مذاق کے پڑھتے ہیں۔ تو ایسا کرنا کیساہے ؟

جواب

قرآن پاک کی آیت مبارکہ کو بطور مذاق و تمسخر کے استعمال کرنا سخت گناہ اور انتہائی درجہ کی بے ادبی ہے۔نیز آیات قرآنیہ کو اللہ تعالی کی مراد اور مقصود سے  پھیر کر کسی اور غرض کے لیے پڑھنا درست نہیں اور اگر اس میں استہزا اور مزاح شامل ہو تو یہ موجب کفر  ہے، ایسے کرنے والے اور مجلس کے شریک لوگوں کو توبہ استغفارکرنا چاہیے اور آئندہ کے لیے بھی ایسی حرکت سے اجتناب کرنا لازم ہے۔

البتہ اگر  گفتگواوربول چال  میں قرآن کریم کی آیات مبارکہ کااستعمال بطور استشہاد اور تمثیل ہو  اور  اس میں کسی قسم کا استہزا یا مزاح  یا آیت میں تبدیلی نہ ہو تو  اس کی گنجائش ہے،نبی کریم صلی ٰ اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے خطبہ ادا فرمارہے تھے، اتنے میں حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما سامنے سے گرتے پڑتے تشریف لائے، انہوں نے لال قمیصیں پہنی ہوئی تھی، آپ صلی ٰ اللہ علیہ وسلم  منبر سے نیچے اترے ، دونوں کو اٹھا کر منبر پر تشریف فرماہوئے اور فرمایا کہ اللہ تعالی نے سچ کہا ہے:﴿إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ﴾ [التغابن: 15](تمہارے اموال اور اولاد بس تمہارے لیے ایک آزمائش کی چیز ہے)، میں نے ان دونوں کو دیکھا تو صبر نہ کرپایا، یہاں تک کہ میں نے اپنی بات ختم کی اور ان دونوں کو اٹھایا۔

سنن الترمذی میں ہے:

"كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يخطبنا إذ جاء الحسن والحسين عليهما قميصان أحمران يمشيان ويعثران، فنزل رسول الله صلى الله عليه وسلم من المنبر فحملهما ووضعهما بين يديه، ثم قال: " صدق الله {إنما أموالكم وأولادكم فتنة} [التغابن: 15] نظرت إلى هذين الصبيين يمشيان ويعثران فلم أصبر حتى قطعت حديثي ورفعتهما."

(ابواب المناقب،رقم الحدیث:3774، (5/ 658) ت : شاكر،ط:مصطفی البابی الحلبی)

"فتاوی ہندیہ " میں ہے کہ جو شخص پیالہ بھر کر لائے اور بطور مزاح "وكأسا دهاقا "کہے تو کافر ہوجاتا ہے۔

"أو ملأ قدحا، وجاء به وقال: {وكأسا دهاقا} [النبأ: 34] ، أو قال: {فكانت سرابا} [النبأ: 20] بطريق المزاح، أو قال عند الكيل والوزن، {وإذا كالوهم أو وزنوهم يخسرون} [المطففين: 3] بطريق المزاح۔۔۔كفر في هذه الصور كلها ، قيل: يكفر وقال الإمام أبو بكر بن إسحاق - رحمه الله تعالى - إن كان القائل جاهلا لا يكفر، وإن كان عالما يكفر."

( کتاب السیر ، الباب التاسع، ج:2، ص:267،ط: رشیدیه)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144404101382

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں