بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قرآن شریف اٹھا کر جھوٹی قسم کھانا


سوال

اگر قرآن شریف اٹھا کر قسمیں کھائیں اور وہ جھوٹی ہوں تو کیا کریں؟

جواب

جھوٹی قسم اٹھانا گناہِ کبیرہ ہے، جھوٹی قسم کا مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ رب العزت کا نام استعمال کر تے ہوئے اور اللہ پاک کو گواہ بنا کر جھوٹ کہتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے پاک نام کی بے حرمتی کرتا ہے، حدیث شریف میں جھوٹی قسم کو شرک، نا حق قتل وغیرہ کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے، صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ کی روایت سے یہ حدیث نقل کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کبائر (یہ ہیں) اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی نفس کا قتل کرنا، جھوٹی قسم کھانا۔

اور خدانخواستہ قرآن شریف اٹھا کر جھوٹی قسم کھائی جائے تو اس گناہ کی قباحت اور سنگینی انتہائی حدتک بڑھ جاتی ہے، جھوٹی قسم اٹھانے والے پر لاازم ہے کہ سچے دل سے توبہ واستغفار کرے، اس کی توبہ کی تکمیل اس طرح ہو سکتی ہے کہ اگر اس کی جھوٹی قسم کی وجہ سے کسی کا نقصان ہوا ہو تو اس کی تلافی کر دے۔

صحیح بخاری میں ہے:

"حدثنا ‌محمد بن مقاتل، أخبرنا ‌النضر، أخبرنا ‌شعبة، حدثنا ‌فراس قال: سمعت ‌الشعبي، عن ‌عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «الكبائر الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، وقتل النفس، واليمين الغموس.»".

(‌‌‌‌كتاب الأيمان والنذور، باب اليمين الغموس، 8/ 137 ط : المطبعة الكبرى الأميرية)

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:

"(وهي) أي اليمين بالله... (غموس) تغمسه في الإثم ثم النار، وهي كبيرة مطلقا، لكن إثم الكبائر متفاوت نهر (إن حلف على كاذب عمدا) ولو غير فعل أو ترك كوالله إنه حجز الآن في ماض (كوالله ما فعلت) كذا (عالما بفعله أو) حال (كوالله ما له علي ألف عالما بخلافه والله إنه بكر عالما بأنه غيره) وتقييدهم بالفعل والماضي اتفاقي أو أكثري (ويأثم بها) فتلزمه التوبة".

وفي الرد:

"(قوله وهي كبيرة مطلقا) أي اقتطع بها حق مسلم أو لا... و معلوم أن إثم الكبائر متفاوت. اهـ.وكذا قال المقدسي: أي مفسدة أعظم من هتك حرمة اسم الله تعالى...

(قوله ويأثم بها) أي إثما عظيما كما في الحاوي القدسي...

(قوله فتلزمه التوبة) إذ لا كفارة في الغموس يرتفع بها الإثم فتعينت التوبة للتخلص منه".

(‌‌كتاب الأيمان، 3/ 705، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503102774

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں