بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرآن مجید آن لائن یا بالمشافہہ پڑھانے کی اجرت لینا


سوال

 کیا قرآنِ پاک آن لائن یا آف لائن پڑھانے پر اجرت لینا جائز ہے ؟ یہ جو کہتے ہیں کہ ہم قرآن پاک پڑھانے کے نہیں، بلکہ وہ وقت جو ہم سٹوڈنٹ کو دیتے ہیں اس کی اجرت ہوتی ہے۔اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ کیا قرآن پاک کی تعلیم دینے کو بطور پروفیشن استعمال کرنا جائز ہے ؟

جواب

قرآن مجید کی بالمشافہہ یا بذریعہ انٹرنیٹ  تعلیم دینا اور اس پر اجرت لینا جائز ہے،  متأخرینِ احناف نے بوجہ ضرورت اس کے جواز کا فتوی دیا ہے،  لیکن یہ اجرت اصل میں قرآن پڑھانے کی نہیں ہوتی، بلکہ قرآن کی تعلیم دینے والا ان کاموں کے لیے  اپنے آپ کو محبوس  اور دیگر کاموں سے فارغ رکھ کر وقت دیتا ہے، اس لیے  اس وقت کی اجرت وصول کرنا  اس کے لیے جائز ہے،  نیز  پہلے دینی تعلیم اور نیک کاموں کی اجرت بیت المال سے مقرر ہوتی ہے، جب زمانہ اور حالات بدل گئے تو  دینی تعلیم کی بقا کے لیے فقہاء نے اس کے جواز کا فتوی دیا۔

باقی  قرآن پڑھانے والے کو آن لائن کے بجائے آمنے سامنے بیٹھ کر لوگوں کو پڑھانا چاہیے،اس طریقہ  میں برکت بھی ہے اور یہ تعلیمی افادہ اور استفادہ کے لیے موزوں بھی ہے، تاہم اگر کوئی ضرورت ہو یعنی کسی جگہ صحیح قرآن  پڑھانے والا دست یاب نہ ہو یا اور کوئی عذر ہو   اور انٹرنیٹ کے ذریعے قرآن پڑھایا جائے، یہ جائز ہے اور اس پر مقررہ اجرت لینا بھی جائز ہوگا، لیکن  اس میں  درج ذیل باتوں کی رعایت رکھنی ضروری ہے:

1) قرآن کی تعلیم کے لیے ویڈیو کالنگ کا استعمال نہ کیا جائے، اس لیے ویڈیو کالنگ شرعاً تصویر کے حکم میں ہے، ہاں  اگر ویڈیو کالنگ میں جان دار کی تصویر سامنے نہ لائی  جائے، بلکہ ویڈیو میں قرآنِ مجید کو سامنے رکھ لیا جائے  تو اس طرح پڑھانا جائز ہوگا۔

2)  قریب البلوغ اور بالغہ خواتین کو مرد قاری پڑھانے سے، اور قریب البلوغ یا بالغ لڑکوں کو عورت پڑھانے سے  اجتناب کرے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 55 ):

"(و) لا لأجل الطاعات مثل (الأذان والحج والإمامة وتعليم القرآن والفقه)، ويفتى اليوم بصحتها لتعليم القرآن والفقه والإمامة والأذان.

 (قوله: ولا لأجل الطاعات) الأصل أن كل طاعة يختص بها المسلم لا يجوز الاستئجار عليها عندنا؛ لقوله عليه الصلاة والسلام : «اقرءوا القرآن ولا تأكلوا به»، وفي آخر ما عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم  إلى عمرو بن العاص: «وإن اتخذت مؤذناً فلا تأخذ على الأذان أجراً»؛ ولأن القربة متى حصلت وقعت على العامل، ولهذا تتعين أهليته، فلا يجوز له أخذ الأجرة من غيره كما في الصوم والصلاة، هداية. مطلب تحرير مهم في عدم جواز الاستئجار على التلاوة والتهليل ونحوه مما لا ضرورة إليه.

(قوله: ويفتى اليوم بصحتها لتعليم القرآن إلخ) قال في الهداية: وبعض مشايخنا - رحمهم الله تعالى - استحسنوا الاستئجار على تعليم القرآن اليوم؛ لظهور التواني في الأمور الدينية، ففي الامتناع تضييع حفظ القرآن، وعليه الفتوى اهـ، وقد اقتصر على استثناء تعليم القرآن أيضاً في متن الكنز ومتن مواهب الرحمن وكثير من الكتب، وزاد في مختصر الوقاية ومتن الإصلاح تعليم الفقه، وزاد في متن المجمع الإمامة، ومثله في متن الملتقى ودرر البحار".

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (8/ 22):

قال - رحمه الله -: "(والفتوى اليوم على جواز الاستئجار لتعليم القرآن) ، وهذا مذهب المتأخرين من مشايخ بلخ استحسنوا ذلك، وقالوا: بنى أصحابنا المتقدمون الجواب على ما شاهدوا من قلة الحفاظ ورغبة الناس فيهم؛ ولأن الحفاظ والمعلمين كان لهم عطايا في بيت المال وافتقادات من المتعلمين في مجازات التعليم من غير شرط، وهذا الزمان قل ذلك واشتغل الحفاظ بمعائشهم فلو لم يفتح لهم باب التعليم بالأجر لذهب القرآن فأفتوا بالجواز، والأحكام تختلف باختلاف الزمان".

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144203200477

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں