بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر کے صاحب نصاب ہر فرد پر قربانی واجب ہے


سوال

میرے ابو امی اور ہم دو شادی شدہ بھائی اکھٹے رہ رہے ہیں،میں ایک سرکاری ملازم ہوں اور ٣۵٠٠٠ تنخواہ ہے۔جبکہ میری بیوی  ساڑھے آٹھ تولے سونا کی مالکہ ہے،میرا  دوسرا بھائی سعودیہ عرب میں برسر روزگار ہےاور اس کی بیوی بھی ساڑھے آٹھ تولہ سونے کی مالکہ ہے،ابو کا اپنا روزگار ہے اور ماہانہ تقریباً ۵٠٠٠٠ آمدنی ہے۔

اب سوال یہ کہ کیا ہم دونوں بھائی اور ہماری بیویاں اور میرے ابو علیحدہ علیحدہ قربانی کریں گے یا ایک ابو کی طرف سے کافی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ قربانی واجب ہونے کا نصاب وہی ہے جو صدقۂ فطر کے واجب ہونے کا نصاب ہے، یعنی جس عاقل، بالغ، مقیم، مسلمان  مرد یا عورت کی ملکیت میں قربانی کے ایام میں قرض کی رقم منہا کرنے کے بعد ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی، یا اس کی قیمت کے برابر رقم ہو،  یا تجارت کا سامان، یا ضرورت  اور استعمال سےزائد اتنا سامان  موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو، یا ان میں سے  بعض یا سب کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر  ہوتو ایسے مرد وعورت (گھر میں جتنے بھی افراد صاحب نصاب سب پر)پر الگ الگ قربانی واجب ہے۔

صورت مسئولہ  میں سائل کی بیوی اور سائل کی بھائی بیوی یعنی سائل کی بھابی پر تو قربانی واجب ہےچوں کہ وہ دونوں  صاحب نصاب ہیں۔ باقی سائل، بھائی اور والد والدہ اگر پہلے سے صاحب نصاب ہیں یا ذی الحجہ کی بارہویں تاریخ کے سورج غروب ہونے سے پہلے صاحبِ نصاب بن جاتے ہیں، یعنی: قربانی کے ایام میں قرض کی رقم منہا کرنے کے بعد ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی، یا اس کی قیمت کے برابر رقم ہوتو ان تینوں پر بھی علیحدہ علیحدہ قربانی واجب ہے۔ صرف ایک والد کی طرف سے سب کے لیے کافی نہ ہو گی۔

اور اگر سائل اس کا بھائی اور والد  مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق صاحب نصاب نہیں تو پھر ان پر قربانی واجب نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے:

"وشرائطها: الإسلام والإقامة واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر).(قوله: واليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضاً يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية، ولو له عقار يستغله فقيل: تلزم لو قيمته نصاباً، وقيل: لو يدخل منه قوت سنة تلزم، وقيل: قوت شهر، فمتى فضل نصاب تلزمه. ولو العقار وقفاً، فإن وجب له في أيامها نصاب تلزم."

(كتاب الأضحية، ج: ٦، صفحہ: ٣١٢، ط: ایچ، ایم، سعید)

فتاوى هندية میں ہے:

"وهي واجبة على الحر المسلم المالك لمقدار النصاب فاضلاً عن حوائجه الأصلية، كذا في الاختيار شرح المختار، ولايعتبر فيه وصف النماء، ويتعلق بهذا النصاب وجوب الأضحية، ووجوب نفقة الأقارب، هكذا في فتاوى قاضي خان".

(الباب الثامن في صدقة الفطر، ج: ۱، صفحہ: ۱۹۱، ط: دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101634

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں