بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قراءۃ خلف الامام


سوال

 قراءۃ خلف الامام کے بارے میں راہنمائی فرمائیں۔

جواب

جماعت سے نماز پڑھنے کی صورت میں امام کے پیچھے مقتدی کے لیے  کسی قسم کی  قراءت کرنا خواہ وہ سورہ فاتحہ ہو یا کوئی اور سورت  جائز  نہیں، نیز اس حکم میں سری اور جہری نمازوں میں کوئی فرق نہیں؛ کیوں کہ امام مقتدیوں کی نماز کا ضامن ہے، مثلاً: اگر امام کا وضو نہ ہو تو تمام مقتدیوں کی نماز ادا نہیں ہوگی، اگرچہ تمام مقتدی باوضو ہوں۔ اسی طرح امام سے سہو ہوجائے تو تمام مقتدیوں پر سجدہ سہو لازم ہوتاہے، اگرچہ کسی مقتدی سے کوئی سہو نہ ہو،  اسی طرح اگر تمام مقتدیوں سے بھی سجدہ سہو واجب کرنے والی غلطی ہوجائے،  لیکن امام سے سہو نہ ہو تو مقتدیوں پر سجدہ سہو واجب نہیں ہوتا، بلکہ امام کی نماز صحیح ہونے کی وجہ سے ان کی نماز بھی صحیح ہوجاتی ہے ، لہٰذا نماز خواہ سری ہو یا جہری امام کی قرأت تمام مقتدیوں کی طرف سے کافی ہوگی۔

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"عن جابر بن عبد الله قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم : من كان له إمام فقراءة الإمام له قراءة."

(کتاب امامۃ الصلاۃ،باب إذا قرأ الإمام فأنصتوا،ج:1 ص: 277،ط:داراحیاءالکتب العربیۃ)

ترجمہ: حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں : جس شخص کا کوئی امام ہو تو امام کی قرأت اس کی بھی قرأت ہے۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن حیطان بن عبد الله الرقاشي قال: صليت مع أبي موسي الأشعري ... أن رسول الله صلي الله عليه وسلم خطبنا، فبين لنا سنتنا و علمنا صلواتنا فقال: إذا صليتم فأقيموا صفوفكم ثم ليؤمكم أحدكم؛ فإذا كبر فكبروا و إذا قرأ فأنصتوا."

(کتاب الصلاۃ،باب التشھد،ج:1،ص:303،ط:داراحیاء التراث العربی)

ترجمہ: حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور ہمیں طریقہ بیان کیا اور ہمیں نماز سکھلائی کہ جب تم نماز ادا کرو تو اپنی صفوں کو درست کرو، پھر تم میں سے کوئی امامت کرائے، پس جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور جب وہ قرأت کرے تو بالکل خاموشی سے سنو۔۔۔ الخ

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"عن جابر، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «كل ‌من ‌كان ‌له إمام فقراءته له قراءة»."

(کتاب الصلاة، من کره القراءة خلف الإمام:1 ،ص:331،رقم الحدیث:3802،ط:دارالتاج لبنان)

ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر وہ شخص جس کا امام ہو، اس (امام) کی قراءت اس (مقتدی) کی قراءت ہوگی۔

الدرالمختار مع الردالمحتارمیں  ہے:

"(والمؤتم لايقرأ مطلقاً) ولا الفاتحة...( فإن قرأ كره تحريماً) و تصح في الأصح...الخ (باب صفة الصلاة، مطلب السنة تكون سنة عين و سنة كفاية."

(کتاب الصلاۃ،فصل فی القراۃ،ج:1،ص:544، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101433

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں