بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قزع اور بال رکھنے کا سنت طریقہ


سوال

آج کل جو فیشن چل رہا ہے کہ کہیں سے بال چھوٹے اور کہیں سے بال بڑے ، تو اس کا کیا حکم ہے ؟ اور بال رکھنے کا سنت طریقہ کیا ہے؟

جواب

سر کے بالوں کے بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ یا تو  سر کے پورے بال رکھے جائیں یا پورے کاٹے جائیں، سر کے کچھ بال کاٹنا اور کچھ چھوڑدینا منع ہے، اسے حدیث میں ’’قزع‘‘ سے تعبیر کرکے اس کی ممانعت کی گئی ہے، اور "قزع"  کی مختلف صورتیں ہیں، حاصل ان کا یہی ہے کہ سر کے بال کہیں سے کاٹے جائیں اور کہیں سے چھوڑدیے جائیں۔

البتہ  سر کے بالوں کی تحدید کے لیے گدی سے بال کاٹے جائیں یا حلق کیا جائے تو  یہ اس ممانعت میں داخل نہیں ہے، اسی طرح کان کے اطراف کے بال جو کان پر لگ رہے ہوں، انہیں برابر کرنے کے لیے اطراف سے معمولی بال کاٹ لینا جیسا کہ عام طور پر اس کا معمول ہے کہ سر  کے بالوں کو متعین کرنے اور اس کو دوسرے سے جدا کرنے کے لیے  کان کے اوپر بلیڈ لگاتے ہیں تو اس کی گنجائش ہے۔  تاہم یہ خیال رہے کہ زیادہ اوپر سے بلیڈ نہ لگایا جائے ورنہ ”قزع“ میں داخل ہوگا، حاصل یہ ہے کہ سر کے اطراف کے بال اگر اس طرح کاٹے جائیں کہ ان کی وجہ سے  سر کے  اس حصہ کے  بال کم اور باقی سر کے بال بڑے ہوں تو یہ درست نہیں ہے، اور اگر سر کے تمام بالوں برابر ہوں اور اطراف سے تحدید کے لیے انہیں برابر کیا جائے تو یہ جائز ہے۔

باقی کتنے بال رکھنا سنت ہیں اس میں تفصیل ہے:

1۔احادیثِ مبارکہ  سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ  ﷺ  سر پر بال رکھنے کا اہتمام فرمایا کرتے تھے، عام حالت میں کانوں کی لو تک بال رکھا کرتے اور کبھی وہ بڑھ کر  کاندھے کے قریب بھی پہنچ جایا کرتے؛ اس لیے عام حالات میں بال  رکھنے کا مسنون طریقہ یہی ہے، لیکن  آپ  ﷺ  نے بال رکھنے سے متعلق بہت سی ہدایات بھی دی ہیں کہ اگر کوئی شخص بال کاٹے تو پورے کاٹے ، سر کے کچھ حصے کے بال کاٹنا اور  کچھ حصے کے بال رکھنا جیسا کہ غیر اقوام کا طریقہ ہے، یہ درست نہیں ، اسی طرح آپ ﷺ نے یہ بھی تعلیم دی کہ جو شخص بال رکھے ان کا اِکرام بھی کرے،  یعنی کنگھی اور تیل وغیرہ کا اہتمام کرے اور بال کو صاف ستھر ا رکھے اور  اس کو پراگندہ ہونے سے بچائے۔

2۔۔ بال رکھنا جس طرح سنت ہے، اسی طرح بال کاٹنے کو بھی بعض محدثین نے اور بالخصوص ہمارے فقہاءِ کرام نے سنت کہا ہے، اور ہر جمعہ بالوں کے حلق کو مستحب کہا گیا ہے۔

3۔۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ  آپ ﷺ کا یہ ارشاد نقل کرکے کہ" جنابت کے غسل میں اگر ایک بال بھی خشک رہ گیا تو اس کا غسل نہیں ہوگا۔۔۔الخ"  فرماتے ہیں: "اسی وجہ سے میں نے اپنے  بالوں سے دشمنی کرلی، یعنی انہیں خوب جڑ سے کاٹتا ہوں،  " اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمیشہ سر کے بال حلق کیا کرتے تھے، علامہ طیبی رحمہ اللہ نے اس سے استدلال کیا ہے کہ جس طرح بال رکھنا سنت ہے اسی طرح بالوں کو خوب اچھی طرح  کاٹنا بھی سنت  ہے، ایک تو اس لیے  کہ آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس عمل کو دیکھا اور اس پر سکوت  فرمایا،  گویا یہ آپ ﷺ کی تقریر ہے، اور اہلِ علم خوب جانتے ہیں کہ قول  اور فعل کی طرح تقریرِ رسول اللہ ﷺ بھی حدیث ہی ہوتی ہے۔ نیز خود حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ خلفائے راشدین میں سے ہیں جن کی سنتوں کے اتباع کا بھی ہمیں حکم ہے۔ تاہم ملاعلی قاری رحمہ نے اس  کو سنت  کہنے پر اشکال کیا ہے اور حلق کو رخصت کہا ہے۔ لیکن یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہیے کہ حضور ﷺ کے وصال کے بعد بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہی معمول رہا اور کسی بھی صحابی رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس فعل پر کبھی نکیر نہیں کی۔ نیز یہ بھی ذہن نشین رہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حج یا عمرے کے احرام سے حلال ہوتے وقت سر منڈوانے والوں کے لیے تین مرتبہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی دعا فرمائی، اور تیسری مرتبہ کے بعد بال کاٹنے والوں کے لیے رحمت کی دعا فرمائی۔

4۔۔  علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمارے علماء  فرماتے ہیں : اگر کسی شخص کے لیے  بال رکھ کر اس میں تیل لگانا اور خیال کرنا مشکل ہو تو  اس کے لیے حلق مستحب ہے، اور جس کے لیے  بالوں کا خیال رکھنا مشکل نہ ہو  ان کے لیے بال رکھنا افضل ہے۔

5۔۔ اگر  ولی یا سرپرست اپنے ماتحتوں کے بارے میں یہ بہتر سمجھے کہ وہ بال رکھ کر اس کا خیال نہیں رکھ سکیں گے، یا اس میں لگ کر  وہ دوسری اہم ضروریات سے غافل ہوجائیں گے، یا  تعلیمی ضرویات وغیرہ  جیسے اہم امور میں مشغولیت کی وجہ سے وہ انہیں بال کٹوانے کا حکم دے تو یہ اس کے لیے جائز ہے،  حدیث  مبارک میں ہے آپ ﷺ نے حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے تین دن بعد ان کے بچوں کو بلایا اور حلاق کو بلا کر ان سب کو گنجا کرادیا، اس حدیث کے تحت ملا علی قاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: باوجود یہ کہ بال رکھنا افضل ہے، آپ ﷺ نے ان بچوں کے بال اس لیے کٹوائے کہ ان کی ماں اسماء بنت عمیس شوہر کی جدائی  کی وجہ سے سخت ترین صدمہ سے دو چار تھی ، ان کو غم کی وجہ سے اتنی فرصت کہاں ملتی کہ وہ  بچوں کے بال میں تیل ، کنگھی کرتیں؛  اس  لیے آپ ﷺ نے ان کے بال کٹوادیے، اس کے بعد ملاعلی قاری رحمہ اللہ ، عبد الملک رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ولی کو اپنے ماتحت بچوں کے حلق وغیرہ کا حق ہے۔

لہذا   بڑے بال رکھنا بھی سنت ہے اور  بال کٹوانا  بھی سنت ہے،   اور  کسی کو یہ کہنا کہ بڑے قد والے  پر زلفیں اچھی لگتی ہیں ، یا سنت کے مطابق بال رکھنے کو نامناسب وضع قطع قرار دینا،  درست نہیں ہے ، باقی جو شخص زلفیں رکھنا چاہے اسے چاہیے کہ وہ درج ذیل باتوں  کا اہتمام کرے:

1- بال سنت کی پیروی میں رکھے، نہ کہ اپنے نفس کی خواہش اور چاہت پوری کرنے کے لیے۔

2- کاندھے سے نیچے تک بال نہ  رکھے، بلکہ عمومی احوال میں کانوں کی لو تک بال رکھے۔

3- بالوں کو صاف ستھرا رکھے، ان کا اکرام کرے۔

4- یہ ذہن نشین رکھے کہ زلفین رکھنا بلاشبہ سنت ہے، لیکن یہ سنت ایسی نہیں جیسے داڑھی رکھنا سنت ہے کہ اسے مونڈنا یا ایک مشت سے کم کرنا جائز ہی نہیں ہے، بلکہ یہ ایسے ہی سنت ہے جیسے عمامہ پہننا رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے کہ کوئی اس پر اتباعِ سنت کی نیت سے عمل کرے تو اجر ہے، لیکن اسے سنت اور اچھا سمجھنے کے باوجود اختیار نہ کرے تو گناہ نہیں ہے۔ نیز داڑھی بڑھانے کا حکم رسول اللہ ﷺ نے دیا ہے، اور فقہاءِ کرام نے روایات کی روشنی میں داڑھی کی کم سے کم مقدار ایک مشت بیان فرمائی ہے، اور یہ بھی صراحت کی ہے کہ  ایک مشت سے زائد اتنی ہی داڑھی رکھی جاسکتی ہے، جس سے شخصی وجاہت اور وقار متاثر نہ ہو، ورنہ اسے کاٹنا ہی چاہیے، اور یہ مقدار ہر شخص کے اعتبار سے الگ  ہوسکتی ہے، بعض لوگوں کے ساتھ  قدرے طویل داڑھی بھی خوب صورت معلوم ہوتی ہے، جب کہ بعض لوگوں کے اعتبار سے مشت سے تھوڑی سی بھی زیادہ مقدار نامناسب معلوم ہوتی ہے، لہٰذا اس موقع پر اگر کوئی سمجھانے کے لیے اتنی مقدار کو نامناسب کہے تو وہ فی نفسہ داڑھی کو نامناسب کہنا نہیں ہوتا، بلکہ اس شخص کے لیے مشت سے  زائد داڑھی کو نامناسب کہنا ہوتاہے، اسی طرح سر کے بال رکھنے میں ہر شخص ایک جیسا نہیں ہے، بعض افراد کے  بال گردن یا کاندھے تک پہنچ جائیں تو بھی خوب صورت معلوم ہوتے ہیں، اور بعض افراد کے بال کانوں کی لو سے نیچے ہوں تو مناسب معلوم نہیں ہوتے، اور بعض لوگ بالوں کی وضع ایسی بنالیتے ہیں کہ وہ مناسب معلوم نہیں ہوتے، لہٰذا اگر اس موقع پر کوئی عالم از راہِ نصیحت کسی کو سمجھاتا ہے تو وہ سنتِ رسول اللہ ﷺ کو غلط نہیں کہہ رہا ہوتا، بلکہ اس شخص کے اعتبار سے اس کے وقار کے متاثر ہونے کی بات کرتا ہے۔ 

مشکوۃ المصابیح  کی روایت میں ہے :

’’حضرت نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو  ’’قزع‘‘سے منع فرماتے ہوئے سنا، حضرت نافع سے پوچھا گیا کہ قزع کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا (قزع اس کو کہتے ہیں کہ ) لڑکے کے سر کے بعض حصہ کو مونڈا جائے اور بعض حصے کو چھوڑ دیا جائے ۔ (بخاری ومسلم ) اور بعض راویوں نے وضاحت کو حدیث کے ساتھ جوڑا ہے یعنی راوی کے مطابق، قزع کے یہ معنی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے بیان فرمائے ‘‘۔

اس حدیث کی شرح میں صاحب مظاہر حق لکھتے ہیں :

’’نوویؒ کہتے ہیں کہ قزع کے معنی مطلق (کسی کے بھی ) سر کے کچھ حصے کو مونڈنا (اور کچھ حصے کو بغیر مونڈے چھوڑ دینا ہیں ) اور یہی معنی زیادہ صحیح ہیں؛ کیوں کہ حدیث کے روای نے بھی یہی معنی بیان کیے ہیں،  اور یہ حدیث کے ظاہری مفہوم کے مخالف بھی نہیں ہیں،  لہٰذا اسی معنی پر اعتماد کرنا واجب ہے!  جہاں تک " لڑکے " کی تخصیص کا ذکر ہے تو یہ محض عام رواج و عادات کی بنا پر ہے، ورنہ قزع جس طرح لڑکے کے حق میں مکروہ ہے، اس طرح بڑوں کے حق میں بھی مکروہ ہے، اسی لیے فقہی روایات میں یہ مسئلہ کسی قید و استثنا  کے بغیر بیان کیا جاتا ہے اور قزع میں کراہت اس اہلِ  کفر کی مشابہت اور بد ہئیتی سے بچانے کے لیے ہے ۔ 

راوی نے " قزع " کا جو مطلب بیان کیا ہے اور جس کو نووی نے زیادہ صحیح کہا ہے، اس میں چوٹی (جیسا کہ غیر مسلم اپنے سر چھوڑتے ہیں ) (زلف اور بالوں کی ) وہ تراش خراش شامل ہے جو مسنون طرز کے خلاف ہو‘‘۔

مشكاة المصابيح میں ہے:

"وعن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «‌من ‌كان ‌له ‌شعر فليكرمه» . رواه أبو داود."

(‌‌‌‌‌‌كتاب اللباس، باب الترجل، الفصل الثاني، رقم الحديث: 4450، ج: 2، ص: 1265، ط: المكتب الإسلامي - بيروت )

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح 

"(وعن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " من كان له شعر) : بفتح العين ويسكن، والظاهر أن المراد به شعر الرأس (فليكرمه) : أي فليزينه ولينظفه بالغسل والتدهين ولا يتركه متفرقاً ؛ فإن النظافة وحسن المنظر محبوب".

(كتاب اللباس، باب الترجل، الفصل الثاني، رقم الحديث: 4450 ج:7، ص: 2827، ط: دار الفكر، بيروت)

كنز العمال میں ہے:

"17176- "أكرم شعرك وأحسن إليه". "ن عن أبي قتادة".
17177- "أكرموا الشعر". "البزار عن عائشة".
17178- "إن اتخذت شعرا فأكرمه". "هب عن جابر".

(‌‌‌‌‌‌حرف الزاي، الكتاب الثاني من حرف الزاي، الباب الأول: في الترغيب فيه، رقم الحديث: 17176، ج: 6، ص: 641، ط: مؤسسة الرسالة)

سنن أبي داود  میں ہے: 

" عن عبد الله بن جعفر، أن النبي صلى الله عليه وسلم أمهل آل جعفر ثلاثاً أن يأتيهم، ثم أتاهم، فقال: «لا تبكوا على أخي بعد اليوم» ، ثم قال: «ادعوا لي بني أخي» ، فجيء بنا كأنا أفرخ، فقال: «ادعوا لي الحلاق» ، فأمره فحلق رءوسنا".

(‌‌كتاب الترجل، باب في حلق الرأس، ج: 4 ص: 133، ط: المطبعة الأنصارية بدهلي)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح  میں ہے:

"(فقال: ادعوا لي) : أي لأمري (الحلاق) : أي المزين (فأمره) : أي بعد مجيئه (فحلق رءوسنا) . وإنما حلق رءوسهم مع أن إبقاء الشعر أفضل إلا بعد فراغ أحد النسكين على ما هو المعتاد على الوجه الأكمل؛ لما رأى من اشتغال أمهم أسماء بنت عميس عن ترجيل شعورهم بما أصابها من قتل زوجها في سبيل الله، فأشفق عليهم من الوسخ والقمل. قال ابن الملك: وهذا يدل على أن للولي التصرف في الأطفال حلقاً وختاناً. (رواه أبو داود، والنسائي)".

(كتاب اللباس، باب الترجل، الفصل الثاني،، رقم الحدیث: 4463، ج: 7، ص: 2834، ط: دار الفكر، بيروت)

وفيه ايضا:

"(عاديت رأسي) : مخافة أن لا يصل الماء إلى جميع شعري، أي: عاملت مع رأسي معاملة المعادي مع العدو، من القطع والجز، فجززته وقطعته، وروى الدارمي وأبو داود في آخر هذا الحديث: أنه كان يجز شعره، وقيل: عاديت رأسي، أي: شعري، كذا نقله السيد جمال الدين. وعن أبي عبيدة: عاديت شعري رفعته عند الغسل (فمن ثم عاديت رأسي) : أي: فعلت برأسي ما يفعل بالعدو من الاستئصال وقطع دابره ". قال الطيبي: وفيه أن المداومة على حلق الرأس سنة ؛ لأنه صلى الله عليه وسلم قرّره، ولأن علياً رضي الله تعالى عنه من الخلفاء الراشدين الذين أمرنا بمتابعة سنتهم اهـ.
ولا يخفى أن فعله كرم الله وجهه إذا كان مخالفاً لسنته صلى الله عليه وسلم وبقية الخلفاء من عدم الحلق إلا بعد فراغ النسك  يكون رخصةً لا سنةً، والله تعالى أعلم. ثم رأيت ابن حجر نظر في كلام الطيبي، وذكر نظير كلامي، وأطال الكلام فيه".

(كتاب الطهارة، باب الغسل، ج: 2، ص: 430، ط: دار الفكر، بيروت)

شرح المشكاة للطيبي الكاشف عن حقائق السنن  میں ہے:

"((وكان علي رضي الله عنه يجز شعره))، وفيه أن المداومة علي حلق الرأس سنة؛ لأنه صلى الله عليه وسلم قرره علي ذلك، ولأنه رضوان الله عليه من الخلفاء الراشدين المهديين الذين أمرنا بإتباع سنتهم، والعض عليها بالنواجذ".

(‌‌كتاب الطهارة، باب الغسل، ج: 3، ص: 814، ط: مكتبة نزار مصطفى الباز)

شرح النووي على مسلم میں ہے:

" قال أصحابنا: حلق الرأس جائز بكل حال، لكن إن شق عليه تعهده بالدهن والتسريح استحب حلقه، وإن لم يشق استحب تركه".

(كتاب الزكاة، ج: 7، ص: 167، ط: دار إحياء التراث العربي)

عمدة القاري شرح صحيح البخاري  میں ہے:

"حدثنا محمد بن عبد الرحيم قال أخبرنا سعيد بن سليمان قال حدثنا عباد عن ابن عون عن ابن سيرين عن أنس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما حلق رأسه كان أبو طلحة أول من أخذ من شعره ... ‌بيان ‌استنباط الاحكام من الاحاديث المذكورة: الأول: أن فيه المواساة بين الأصحاب في العطية والهبة. الثاني: المواساة لا تستلزم المساواة. الثالث: فيه تنفيل من يتولى التفرقة على غيره. الرابع: فيه أن حلق الرأس سنة أو مستحبة اقتداء بفعله، عليه الصلاة والسلام".

 (كتاب الوضوء، باب الماء الذي يغسل به شعر الانسان، ج:3، ص: 37، ط: دار إحياء التراث العرب)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"يكره القزع، وهو أن يحلق البعض ويترك البعض قطعاً مقدار ثلاثة أصابع، كذا في الغرائب".

(كتاب الكراهية، الباب التاسع عشر في الختان والخصاء وحلق المرأة شعرها ووصلها شعر غيرها، ج: 5، ص: 357، ط: دارالفكر)

فتاوى شامي میں ہے:

" وأما حلق رأسه ففي الوهبانية وقد قيل:
حلق الرأس في كل جمعة ... يحب وبعض بالجواز يعبر.
(قوله: وأما حلق رأسه إلخ) وفي الروضة للزندويستي: أن السنة في شعر الرأس إما الفرق أو الحلق. وذكر الطحاوي: أن الحلق سنة، ونسب ذلك إلى العلماء الثلاثة".

 (‌‌كتاب الحظر والإباحة، ج: 6، ص: 407، ط: سعید)

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح میں ہے:

"وأما حلق الرأس ففي التتارخانية عن الطحاوي: أنه سن عند أئمتنا الثلاثة اهـ وفي روضة الزند ويستى: السنة في شعر الرأس أما الفرق وأما الحلق اهـ يعني حلق الكل إن أراد التنظيف، أو ترك الكل ليدهنه ويرجله ويفرقه؛ لما في أبي داود والنسائي عن ابن عمران أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رأى صبياً حلق بعض رأسه وترك بعضه فقال صلى الله عليه وسلم: "احلقوه كله أو اتركوه كله". وفي الغرائب: يستحب حلق الشعر في كل جمعة".

(‌‌باب الجمعة، ص: 525، ‌‌كتاب الصلاة، ط: دار الكتب العلمية بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501101492

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں