بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قضاء نمازوں کی تعداد معلوم نہ ہونے کی صورت میں قضاء کرنے کا طریقہ


سوال

میری عمر 19 سال ہے اور مجھے پتہ نہیں ہے کہ میں نے کتنی نمازیں قضاء کی ہیں اور میں اسے کیسے ادا کروں؟

جواب

واضح رہے کہ نماز  کی فرضیت شرعاً بلوغت سے ہے، اس لیے نمازوں کی قضا کا حساب بلوغت سے لگایا  جائے گا ، اس سے پہلے کی قضا شرعاً لازم نہیں، اور بلوغت کا تعلق علاماتِ بلوغت ظا ہر ہونے سے ہے؛  اگر پندرہ سال کی عمر سے پہلے ہی بلوغت کی علامات ( مثلاً احتلام وغیرہ) میں سے کوئی علامت ظاہر ہوجائے تو اسی وقت سے نماز فرض ہو جاتی ہے ، لیکن اگر کوئی علامت ظاہر نہ ہو تو لڑکا اور لڑکی دونوں پندرہ سال کی عمر پوری ہونے پر بالغ سمجھے جائیں گے اور جس دن سولہواں سال شروع ہوگا اس دن سے ان پر نماز، روزہ وغیرہ فرض ہوگالہذا صورت مسئولہ میں آپ   کو متعین طور پر قضا شدہ نمازوں  کی تعداد معلوم نہیں  ہے  اور  یقینی حساب بھی ممکن نہیں ہے   تو  غالب گمان کے مطابق ایک اندازا  اور تخمینہ لگالیں کہ بالغ ہونے کے بعد سے جتنے سالوں یامہینوں کی نمازیں قضا  ہوئی ہیں احتیاطاً  اس تعداد سے کچھ  بڑھا کر اُسے کہیں لکھ کر رکھ لیں، اس کے بعد فوت شدہ نمازیں قضا  کرنا شروع کردیں،  قضا صرف فرض اور وتر نمازوں کی ہوتی ہے، لہٰذا جس وقت کی نماز فوت ہوئی ہو  اس کو قضا  کرتے وقت صرف فرض رکعتیں (اور عشاء میں فرض کے ساتھ  صرف وتر) قضا  کرنا ہوں گی،   مثلاً فجر کی قضا دو رکعت ، ظہر اور عصر کی چار، چار اور مغرب کی تین رکعتیں ہوں گی، عشاء کی نماز قضا  کرتے ہوئے چار فرض اور تین وتر کی قضا  کرنا  ہوگی، اور جمعہ کی نماز کی جگہ ظہر کی فرض نماز قضا کرنی ہوگی۔ 

پھر اگر متعینہ طور پر قضا نماز کا دن اور وقت معلوم نہ ہو نے کی وجہ سے متعینہ نماز کی نیت کرنا  مشکل ہو تو اس طرح  نیت کی جاسکتی ہے کہ مثلاً جتنی فجر کی نمازیں میں نے قضا   کی ہیں ان میں سے پہلی  فجر کی نماز ادا کر رہا ہوں یا مثلاً جتنی ظہر  کی نمازیں قضا  ہوئی ہیں ان میں سے پہلی ظہر  کی نماز ادا کر رہا ہوں، اسی طرح بقیہ نمازوں میں بھی نیت کریں ، اسی طرح پہلی کے بجائے اگر آخری کی نیت کرے تو بھی درست ہے، یعنی یوں نیت کرلے کہ سب سے آخر میں جو فجر قضا ہوئی ہے وہ پڑھ رہاہوں۔

ایک دن کی تمام فوت شدہ نمازیں یا کئی دن کی فوت شدہ نمازیں ایک وقت میں پڑھ لیں، یہ بھی درست ہے۔ نیزایک آسان صورت فوت شدہ نمازوں کی ادائیگی کی یہ بھی ہے کہ ہر وقتی فرض نمازکے ساتھ اس وقت کی قضا  نمازوں میں سے ایک یا اس سے زیادہ نمازیں پڑھ لیاکریں، (مثلاً: فجر کی وقتی فرض نماز ادا کرنے کے ساتھ قضا  نمازوں میں سے فجر کی نماز بھی پڑھ لیں، لیکن مسجد میں لوگوں کے سامنے نہیں ظہر کی وقتی نماز کے ساتھ ظہر کی ایک قضا  نماز پڑھ لیا کریں)،  جتنے برس یاجتنے مہینوں کی نمازیں قضا ہوئی ہیں اتنے سال یامہینوں تک اداکرتے رہیں، جتنی قضا  نمازیں پڑھتے جائیں اُنہیں لکھے ہوئے ریکارڈ میں سے کاٹتے جائیں، اِس سے ان شاء اللہ مہینہ میں ایک مہینہ کی اور سال میں ایک سال کی قضا  نمازوں کی ادائیگی بڑی آسانی کے ساتھ  ہوجائے گی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(بلوغ الغلام بالاحتلام والإحبال والإنزال) والأصل هو الإنزال (والجارية بالاحتلام والحيض والحبل) ولم يذكر الإنزال صريحا لأنه قلما يعلم منها (فإن لم يوجد فيهما) شيء (فحتى يتم لكل منهما خمس عشرة سنة به يفتى) لقصر أعمار أهل زماننا (وأدنى مدته له اثنتا عشرة سنة ولها تسع سنين) هو المختار كما في أحكام الصغار 

(قوله: به يفتى) هذا عندهما وهو رواية عن الإمام وبه قالت الأئمة الثلاثة، وعند الإمام حتى يتم له ثماني عشرة سنة ولها سبع عشرة سنة. (قوله: لقصر أعمار أهل زماننا) ولأن «ابن عمر - رضي الله تعالى عنهما - عرض على النبي - صلى الله عليه وسلم - يوم أحد وسنه أربعة عشر فرده، ثم يوم الخندق وسنه خمسة عشر فقبله» ولأنها العادة الغالبة على أهل زماننا، وغيرهما احتياط فلا خلاف في الحقيقة والعادة إحدى الحجج الشرعية فيما لا نص فيه نص عليه الشمني وغيره در منتقى."

(کتاب الحجر ، فصل بلوغ الغلام بالاحتلام جلد ۶ ص: ۱۵۳ ، ۱۵۴ ط: دارالفکر)

وفیہ ایضا:

"كثرت الفوائت نوى أول ظهر عليه أو آخره 

(قوله كثرت الفوائت إلخ) مثاله: لو فاته صلاة الخميس والجمعة والسبت فإذا قضاها لا بد من التعيين لأن فجر الخميس مثلا غير فجر الجمعة، فإن أراد تسهيل الأمر، يقول أول فجر مثلا، فإنه إذا صلاه يصير ما يليه أولا أو يقول آخر فجر، فإن ما قبله يصير آخرا، ولا يضره عكس الترتيب لسقوطه بكثرة الفوائت."

(کتاب الصلوۃ ، باب قضاء الفوائت جلد ۲ ص: ۷۶ ط: دارالفکر)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144406100815

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں