بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قصر نماز کی قضا حضر میں مکمل ادا کرنے کا حکم


سوال

اگر قصر نماز کی قضا مثلا ظہر اور عصر مقیم ہوتے ہوۓ مکمل چار رکعت پڑ ھ لی ہو تو کیا نماز کو لوٹائیں گے؟

جواب

اگرجان بوجھ کر قصر نماز کی قضا مکمل چار رکعت  پڑھ لی جائے تو دیکھا جائے گاکہ دوسری رکعت کا قعدہ کیا گیا ہے یا نہیں، اگر دوسری رکعت کا قعدہ کیا گیا ہے تو کراہت ِتحریمی کے ساتھ نماز ہوجائے گی اور اس کا اعادہ کرلینا بہتر ہوگا کیونکہ یہ نماز  سنت طریقے کے خلاف پڑھی گئی ہے اور اگر دوسری رکعت کا قعدہ  نہیں کیا گیا تو نماز ہی نہیں ہوگی اور اس نماز کا اعادہ  لازم ہوگا۔  

فتاوی شامی میں ہے:

"(والقضاء يحكي) أي يشابه (الأداء سفرا وحضرا) لأنه بعد ما تقرر لا يتغير غير أن المريض يقضي فائتة الصحة في مرضه بما قدر.

(قوله: سفرا وحضرا) أي فلو فاتته صلاة السفر وقضاها في الحضر يقضيها مقصورة كما لو أداها وكذا فائتة الحضر تقضى في السفر تامة.

(قوله: لأنه بعدما تقرر) أي بخروج الوقت، فإن الفرض بعد خروج وقته لا يتغير عما وجب أما قبله فإنه قابل للتغير بنية الإقامة أو إنشاء السفر وباقتداء المسافر بالمقيم."

(كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر:2/ 135، ط: سعيد)

وفيه أيضا:

"(‌فلو ‌أتم ‌مسافر إن قعد في) القعدة (الأولى تم فرضه و) لكنه (أساء) لو عامدا لتأخير السلام وترك واجب القصر وواجب تكبيرة افتتاح النفل وخلط النفل بالفرض، وهذا لا يحل كما حرره القهستاني بعد أن فسر أساء بأثم واستحق النار.

(قوله: بعد أن فسر أساء بأثم) وكذا صرح في البحر بتأثيمه، فعلم أن الإساءة هنا كراهة التحريم رحمتي."

(كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر:2/ 128، ط: سعيد)

المحيط البرهاني میں ہے:

"إذا صلى ‌المسافر أربعاً ولم يقعد على رأس الركعتين فسدت صلاته، لانشغاله بالنفل قبل إكمال الفرض، وإن كان قعد تمت صلاته وهو مسيء لخروجه عن الفرض ودخوله في النفل لا على وجه المسنون."

(كتاب الصلاة، ‌‌الفصل الثاني والعشرون في صلاة السفر: 2/ 21، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوى هنديه میں ہے:

"وفرض المسافر في الرباعية ركعتان، كذا في الهداية، والقصر واجب عندنا، كذا في الخلاصة فإن صلى أربعا وقعد في الثانية قدر التشهد أجزأته والأخريان نافلة ويصير مسيئا لتأخير السلام وإن لم يقعد في الثانية قدرها بطلت، كذا في الهداية."

(كتاب الصلاة،الباب الخامس عشر في صلاة المسافر:1/ 139، ط: رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144312100333

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں