بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض واپس كرتے وقت زائد دينا


سوال

 ایک شخص نے مجھ سے کچھ رقم ادھار لی تھی، اب جب ادھار کی  ادائیگی کا وقت آیا تو کچھ رقم زائد کے ساتھ ادائیگی کررہا ہے ۔واضح رہے کہ ادھار دیتے وقت اس طرح کے کوئی شرط نہیں تھی، آیا وہ زائد رقم لینا میرے لیے جائز ہوگا؟

جواب

قرض  کے بارے میں شرعی ضابطہ یہ ہے کہ جتنا قرض لیاجائے اتنی ہی مقدار قرض دار پر واپس کرنالازم ہے، چاہے جتنے عرصے بعد واپسی ہو، قرض میں دی گئی رقم کی مالیت گھٹنے یا بڑھنے کا شریعت نے اعتبار نہیں کیا ہے، چنانچہ شریعت مطہرہ کا مسلمہ اصول ہے کہ’’الدیون تقضیٰ بأمثالها‘‘ یعنی قرضوں کی واپسی ان قرضوں کے مثل (برابر) سے ہی ہوگی، اسی لیے اگر قرض کی واپسی میں اضافہ کی شرط لگائی جائے تو وہ عین سود ہوگا۔ البتہ اگر  کسی پیشگی معاہدہ و شرط کے بغیر قرض دار خود سے قرض کی واپسی کے وقت قرض خواہ کا احسان مانتے ہوئے کچھ زیادہ ادائیگی کردے اور اضافے کے ساتھ ادائیگی کا عرف نہ ہو تو یہ اس کی طرف سے تبرع اور احسان ہوگا اور اس پر اسے اجر و ثواب بھی ملے گا، کیوں کہ حدیث میں بھی اس بات کی ترغیب دی گئی ہے، چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا :تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرض کی ادائیگی زیادہ اچھے طریقہ سے کرنے والا ہو۔  لہٰذا جس طرح وقت پر قرضہ ادا کرنا اس میں شامل ہے، اسی طرح  بلا شرط بطور تبرع کچھ بڑھا کر ادا کرنا بھی اچھے طریقہ سے ادا کرنے میں شامل ہے۔ لیکن یہ واضح رہے کہ قرض خواہ صراحۃً یا اشارۃً یا کنایۃً زیادتی کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر آپ نے قرض دیتے وقت اصل رقم سے زائد رقم واپس کرنے کی شرط نہیں لگائی تھی اور مقروض قرض واپس کرتے ہوئے اپنی خوشی سے اصل رقم کے ساتھ زائد رقم بھی دے رہا ہے تو یہ زائد رقم آپ کے لیے لینا جائز ہے۔

حدیث مبارک ہے:

'' عن عطاء بن يسار، عن أبي رافع، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم استسلف من رجل بكراً، فقدمت عليه إبل من إبل الصدقة، فأمر أبا رافع أن يقضي الرجل بكره، فرجع إليه أبو رافع، فقال: لم أجد فيها إلا خياراً رباعياً، فقال: «أعطه إياه، إن خيار الناس أحسنهم قضاءً.''

(الصحيح لمسلم، كتاب المساقاة،باب من استسلف شيئا فقضى خيرا منه، وخيركم أحسنكم قضاء، رقم الحديث: 1600)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به."

(رد المحتار علي الدر المختار، كتاب البيوع، باب المرابحة والتولية، 166/5، سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100644

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں