بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض پر دی ہوئی رقم پر زکات


سوال

 کچھ دکان داروں سے قرضہ لینا ہے، یہ لین دین چلتا رہتا ہے، ان میں کچھ لوگوں کے پیسے جلدی اور کچھ کے دیر سے آتے ہیں اور اسی طرح کچھ کسٹمر ایسے ہیں کہ دو چار مہینوں میں قرضہ واپس کر دیتے ہیں اور کچھ سالوں بعد آیا کہ اس میں زکوٰۃ واجب ہوگی یا نہیں؟

جواب

 قرض کی وصولی جلد ہو یا دیر،بہر صورت قرض پر دی ہوئی رقم کی زکات  قرض دینے والے پر لازم ہوتی ہے، جو رقم قرض کے طور پر کسی کو دی ہوئی ہے، اگروہ تنہا یا دوسری موجودنقدی، سونا ، چاندی یا مالِ تجارت کے ساتھ  مل کر نصاب کے برابر یا اس سے زائدہے تو قرض وصول ہونے کےبعد زکات کی ادائیگی لازم ہوگی، اگرقرض وصول ہونےسے پہلے زکات ادا کرے گا تو زکات ادا ہوجائے گی، وصول ہونے کے بعد گزشتہ ادا کردہ زکات دوبارہ دینا لازم نہیں ہوگی۔ اور اگر قرض وصول ہونے تک زکات ادا نہ کی اور وصولی میں ایک سے زائد سال گزرگئے  تو گزشتہ سالوں کی بھی زکاۃ ادا کرنی ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصاباً وحال الحول، لكن لا فوراً بل (عند قبض أربعين درهماً من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهماً يلزمه درهم.

 (قوله: عند قبض أربعين درهماً) قال في المحيط؛ لأن الزكاة لاتجب في الكسور من النصاب الثاني عنده ما لم يبلغ أربعين للحرج، فكذلك لايجب الأداء ما لم يبلغ أربعين للحرج. وذكر في المنتقى: رجل له ثلثمائة درهم دين حال عليها ثلاثة أحوال فقبض مائتين، فعند أبي حنيفة يزكي للسنة الأولى خمسة وللثانية والثالثة أربعة أربعة من مائة وستين، ولا شيء عليه في الفضل؛ لأنه دون الأربعين. اهـ".

(  کتاب الزکاة، باب زکاة المال،ج2،ص305، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100367

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں