بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض معاف کرنے کے بعد دوبارہ مطالبہ


سوال

 میرے ایک عزیز نے اپنے والد کے بڑے  بھائی سے جھوٹے  بہانوں سے تقریبًا ایک کروڑ روپے وقفہ  وقفہ  سے لیے تھے بعد میں جب اس کے تایا کو اس بات کا پتا چلا تو کچھ ناراضی کے بعد انہوں نے کہا کہ میں نے معاف کردیے ہیں اور کئی مرتبہ کہا ہے؛ کیوں کہ ان کے بھائی جس کے بیٹے نے پیسے لیے تھے  ان کا کچھ سال پہلے انتقال ہوچکا ہے،  لیکن اس کے تایا کا بیٹا مسلسل کئی سالوں سے اسے پریشان کررہا ہے کہ بس پیسے واپس کرو،  وہ قتل تک کی دھمکی دے  چکا ہے تو  پوچھنا یہ تھا کہ کیا شرعًا اس کا پیسے واپس کرنا ضروری ہے اور اگر نہ کرے تو کیا گناہ گار ہوگا؟

جواب

 اگر قرض دار ، مقروض کو  اپنا قرضہ  زبانی یا تحریری معاف کردے اور مقروض قبول کرلے تو پھر  قرض دار یا اس کے ورثاء کی جانب سے مقروض سے اس کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا۔حدیث شریف میں قرض کی معافی اورتخفیف پرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی فضلیتیں ذکرفرمائی ہیں،جس قدرقرض کی رقم معاف کی گئی ہو اس کے بقدرصدقہ کاثواب ملتاہے،نیزقرض کی معافی کی بنا  پرقیامت کے دن مصائب سے چھٹکارانصیب ہوگااوربعض روایات میں ہے کہ عرش کاسایہ نصیب ہوگا؛  اس لیے شرعاً واخلاقاً قرض کی  رقم معاف کرنے کے بعد اب مطالبہ کرکے اپنے ثواب کو ضائع نہیں کرنا چاہیے، خصوصًا جب کہ قرض والد کا تھا اور وہ معاف کرچکے ہیں، اور وہ حیات ہیں تو بیٹے کے لیے جبرًا مطالبہ درست نہیں ہے۔

[فتاوی عالمگیری،الباب الخامس فی الرجوع فی الھبۃ،ج:۲،ص؛۳۶۰،۳۶۲۔ط:رشیدیہ کوئٹہ]

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200343

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں