بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض خواہ کا انتقال ہوگیا ہو اور اس کے گھر اور ورثاء کا پتہ نہ ہو تو قرض کس کو ادا کیا جائے گا؟


سوال

 ہمارے ایک دوست تھے جن کی رہائش گاہ کا مجھے پتہ معلوم نہیں تھا، میں نے ان کو کچھ پیسے دینے تھے جو میری طرف ادھار تھے، لیکن ان کا انتقال ہوگیا ،اب میں کوشش میں ہوں کہ ان کے گھر کا پتہ لگایا جا سکے،لیکن اگر پتہ نہ ملے تو اس صورت میں کیا کرنا چاہیے ؟نیز جب میں نے قرض لیا تھا تب مہنگائی کم تھی اور اب زیادہ ہے، تو وہی رقم واپس کرنا ٹھیک ہے؟ یا اس سے زیادہ بھی دی جا سکتی ہے؟

جواب

پہلے آپ ہر ممکن طریقے سے قرض خواہ کا پتہ  لگانے کی مکمل کوشش کریں۔   اگر آپ کے دوست  کا پتہ نہ مل سکے اور ان ورثاء یا متعلقین میں سے بھی کسی کا علم نہ ہوسکے، تو  ایسی صورت میں آپ پر لازم ہے کہ  جو آپ کے ذمہ رقم ہے،اتنی رقم آپ کے مرحوم دوست کو ثواب پہنچانے کی نیت سے   کسی غریب کو صدقہ کردیں، پھر اگر کبھی آپ کے دوست کے ورثاءآپ سے اس رقم کا مطالبہ کریں اور وہ اس رقم کے صدقہ کرنے پر راضی ہوں، تو ٹھیک ورنہ اتنی رقم آپ اپنےکے دوست کے ورثاء کو ادا کردیں۔

نیز جو رقم آپ نے اپنے دوست سے بطور قرض لی تھی وہی رقم آپ کے ذمہ لوٹانا لازم ہے، مہنگائی کی وجہ سے آپ کے ذمہ قرض  کی اصل رقم ہی ادا کرنا ضروری ہے، ہاں اگر آپ اپنی خوشی سے مزید کچھ دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں۔

الدر المختار میں ہے:

"(عليه ديون ومظالم ‌جهل ‌أربابها وأيس) من عليه ذلك (من معرفتهم فعليه التصدق بقدرها من ماله وإن استغرقت جميع ماله) هذا مذهب أصحابنا لا تعلم بينهم خلافا كمن في يده عروض لا يعلم مستحقيها اعتبارا للديون بالأعيان (و) متى فعل ذلك (سقط عنه المطالبة) من أصحاب الديون."

وفي الرد تحته:

"(قوله: ‌جهل ‌أربابها) يشمل ورثتهم، فلو علمهم لزمه الدفع إليهم؛ لأن الدين صار حقهم. وفي الفصول العلامية: من له على آخر دين فطلبه ولم يعطه فمات رب الدين لم تبق له خصومة في الآخرة عند أكثر المشايخ؛ لأنها بسبب الدين وقد انتقل إلى الورثة. والمختار أن الخصومة في الظلم بالمنع للميت، وفي الدين للوارث. قال محمد بن الفضل: من تناول مال غيره بغير إذنه ثم رد البدل على وارثه بعد موته برئ عن الدين وبقي حق الميت لظلمه إياه، ولا يبرأ عنه إلا بالتوبة والاستغفار والدعاء له. اهـ. (قوله: فعليه التصدق بقدرها من ماله) أي الخاص به أو المتحصل من المظالم. اهـ. ط وهذا إن كان له مال. وفي الفصول العلامية: لو لم يقدر على الأداء لفقره أو لنسيانه أو لعدم قدرته قال شداد والناطفي رحمهما الله تعالى: لا يؤاخذ به في الآخرة إذا كان الدين ثمن متاع أو قرضا، وإن كان غصبا يؤاخذ به في الآخرة، وإن نسي غصبه، وإن علم الوارث دين مورثه والدين غصب أو غيره فعليه أن يقضيه من التركة، وإن لم يقض فهو مؤاخذ به في الآخرة، وإن لم يجد المديون ولا وارثه صاحب الدين ولا وارثه فتصدق المديون أو وارثه عن صاحب الدين برئ في الآخرة.

مطلب فيمن عليه ديون ومظالم ‌جهل ‌أربابها (قوله: كمن في يده عروض لا يعلم مستحقيها) يشمل ما إذا كانت لقطة علم حكمها، وإن كانت غيرها فالظاهر وجوب التصدق بأعيانها أيضا (قوله: سقط عنه المطالبة إلخ) كأنه والله تعالى أعلم؛ لأنه بمنزلة المال الضائع والفقراء مصرفه عند جهل أربابه، وبالتوبة يسقط إثم الإقدام على الظلم ط (قوله: يجب عليه أن يتصدق بمثله) المختار أنه لا يلزمه ذلك في القهستاني عن الظهيرية، وكذا في البحر والنهر عن الولوالجية."

(كتاب اللقطة، ج:4، ص:283، ط:سعيد)

وفیہ ایضاً:

"فإن الديون تقضى بأمثالها فيثبت للمديون بذمة الدائن مثل ما للدائن بذمته فيلتقيان قصاصًا."

(كتاب الشركة، مطلب في قبول قوله دفعت المال بعد موت الشريك أو الموكل،ج:4،ص:320،ط: سعید)

" العقود الدرية في تنقيح الفتاوی الحامدیة"میں ہے:

"(سئل) في رجل استقرض من آخر مبلغاً من الدراهم و تصرف بها ثم غلا سعرها فهل عليه رد مثلها؟(الجواب) : نعم و لاينظر إلى غلاء الدراهم و رخصها كما صرح به في المنح في فصل القرض مستمداً من مجمع الفتاوى".

(كتاب البيوع،باب القرض،ج:1،ص:279،ط: دار المعرفۃ)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144407101697

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں