میں نے کسی کو قرض دیا ہے، کیا اس پر زکات واجب ہے؟
جو رقم قرض کےطورپرکسی کو دی ہوئی ہے اگروہ رقم نصاب کے برابر ہو یا قرض دینے والے کے دوسرے قابلِ زکات اموال یعنی نقدی،سونا،چاندی یا مال تجارت کے ساتھ مل کر نصاب کے برابریا اس سے زائدہو تو اس کی زکات واجب ہوگی، البتہ اس کی ادائیگی قرض وصول ہونے کے بعد لازم ہوگی، اگر قرض وصول ہونےسے پہلے زکات ادا کر دی جائے تو بھی زکات ادا ہوجائے گی۔
اگر کئی سال بعد قرض وصول ہوا، اور اس دوران قرض دینے والا صاحبِ نصاب رہا اور قرض کی رقم کی زکات سال بہ سال نہیں دی گئی تو اب تمام سالوں کی زکات دینا ہوگی۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(و) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصاباً وحال الحول، لكن لا فوراً بل (عند قبض أربعين درهماً من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهماً يلزمه درهم.
(قوله: عند قبض أربعين درهماً) قال في المحيط؛ لأن الزكاة لاتجب في الكسور من النصاب الثاني عنده ما لم يبلغ أربعين للحرج، فكذلك لايجب الأداء ما لم يبلغ أربعين للحرج. وذكر في المنتقى: رجل له ثلثمائة درهم دين حال عليها ثلاثة أحوال فقبض مائتين، فعند أبي حنيفة يزكي للسنة الأولى خمسة وللثانية والثالثة أربعة أربعة من مائة وستين، ولا شيء عليه في الفضل؛ لأنه دون الأربعين. اهـ".
(2/ 305، کتاب الزکاۃ،باب زکاۃ المال، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144208201073
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن