بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قاری صاحب کے لیے پڑھنے والے بچوں کے گھر سے کوئی چیز ہدیۃً آئے تو اس کے قبول کرنے کا حکم


سوال

قرآن پاک پڑھانے والے کے لیے پڑھنے والے بچوں کے گھر سے کوئی چیز ہدیۃً کھانے کی آ جائے تو کیا وہ لینا اور کھانا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ نابالغ کا اپنے مال میں سے کسی کو ہدیہ دینا درست نہیں ہے،البتہ اگر قاری صاحب کے  پاس پڑھنے والے بچوں کے والدین یا گھر کا کوئی بالغ فرد کچھ کھانا وغیرہ (چاہے بچے کےہاتھ) بھیجےتو اس کو قبول کرنا اور کھانا جائز ہو گا، لیکن اگر بچے ازخود اپنے مال میں سے کوئی چیز ( کھانے کی ہو یا اس کے علاوہ)قاری صاحب کو ہدیہ کرنا چاہیں  تو یہ جائز نہیں ہو گا، لہذا اس کے قبول کرنے سے اجتناب کرے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتصرف الصبي والمعتوه) الذي يعقل البيع والشراء (إن كان نافعا) محضا (كالإسلام والاتهاب صح بلا إذن وإن ضارا كالطلاق والعتاق) والصدقة والقرض (لا وإن أذن به وليهما وما تردد) من العقود (بين نفع وضرر كالبيع والشراء توقف على الإذن) حتى لو بلغ فأجازه نفذ.

(قوله: والاتهاب) أي قبول الهبة وقبضها وكذا الصدقة، قهستاني (قوله: وإن ضاراً) أي من كل وجه أي ضرراً دنيوياً، وإن كان فيه نفع أخروي كالصدقة والقرض (قوله: كالطلاق والعتاق) ولو على مال فإنهما وضعاً لإزالة الملك وهي ضرر محض، ولايضر سقوط النفقة بالأول وحصول الثواب بالثاني، وغير ذلك مما لم يوضعا له إذ الاعتبار للوضع، وكذا الهبة والصدقة وغيرهما قهستاني".

(كتاب المأذون، ج: 6، ص: 173، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508100992

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں