بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قعدہ اولیٰ میں بقدر رکن تشہد کے تکرار سے سجدہ سہو کا حکم


سوال

میں نے ایک مرتبہ امام صاحب کی غیر حاضری میں نماز پڑھائی تھی میں نے قعدہ اولی میں ایک مرتبہ مکمل تشہد پڑھنے کے بعد "اشہد ان لا الہ "سے اخیر تک پھر سے پڑھا تھا تو کیا اس  صورت میں سجدہ سہو کرنا ضروری تھا ؟ اور میں نے سجدہ سہو نہیں کیا تھا تو اب کیا حکم ہے؟ براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ اگر کوئی شخص تنہا نماز پڑھتے ہوئے یا امامت کرتے ہوئے قعدہ اولیٰ میں دو مرتبہ پوری  تشہد پڑھ لیتا ہے، یا اتنی پڑھ لیتا ہے جو ایک رکن  یعنی تین بار سبحان اللہ  کہنے کے مقدار ہو ،  تو اس وجہ سے  چوں کہ  تیسری رکعت کے قیام میں (جو کہ فرض ہے اس میں) تاخیر ہوتی ہے،  اس لیے اس پر نماز کے آخر میں سجدۂ  سہو ادا کرنا لازم ہو گا،  اگر سجدہ سہو  ادا نہیں کیا تو نماز وقت کے اندر واجب الاعادہ ہوگی، اور  وقت کے بعد اعادہ  واجب نہیں ہے، البتہ اعادہ کرلینا بہتر ہے۔

صورتِ مسئولہ میں   سائل  پر سجدہ سہو کرنا واجب تھا، لیکن  نہیں کیا اس لیے وقت کے اندر اعادہ کرلینا ضروری تھا ، اب چوں کہ وقت گزر چکا ہے لہذا ضروری نہیں ہے۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق  میں ہے:

"لو ‌كرر ‌التشهد في القعدة الأولى فعليه السهو لتأخير القيام ولو كذا لو صلى على النبي - صلى الله عليه وسلم - فيها لتأخيره واختلفوا في قدره والأصح وجوبه باللهم صل على محمد."

 (كتاب الصلوة، باب سجود السهو، ج:2، ص:105، ط:دار الكتاب الإسلامي )

المحيط البرهاني میں ہے:

"إذا ‌كرر ‌التشهد في القعدة الأولى فعليه سجود السهو، وإن كررها في القعدة الثانية فلا، ولا كذلك في سجود السهو في الأفعال بأن قام في موضع القعود، أو قعد في موضع القيام، أو سجد في موضع الركوع، أو ركع في موضع السجود، أو كرر الركن أو قدم الركن أو أخره."

(كتاب الصلوة، الفصل السابع عشر في سجود السهو، ج:1، ص:505، ط:دار الكتب العلمية، بيروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و لايجب السجود إلا بترك واجب أو تأخيره أو تأخير ركن أو تقديمه أو تكراره أو تغيير واجب بأن يجهر فيما يخافت وفي الحقيقة وجوبه بشيء واحد وهو ترك الواجب، كذا في الكافي."

( كتاب الصلاة، الباب الثاني عشر في سجود السهو،  ج:1، ص:126، ، ط: دار الفكر)

و فیہ ایضا:

"ثم واجبات الصلاة أنواع ... (و منها) التشهد ... و لو كرر التشهد في القعدة الأولى فعليه السهو."

( كتاب الصلاة،  الباب الثاني عشر في سجود السهو، ج:1، ص:127،   ط: دار الفكر)

البناية شرح الهداية میں ہے:

"أن الأصل في وجوب سجدة السهو ترك الواجب أو تأخير الواجب أو ‌تأخير ‌الركن سهوا، فإن وجد واحدا منها يتحقق سبب الوجوب فيجب سجود السهو."

 (كتاب الصلوة، باب سجود السهو،فصل في متى يلزم سجود السهو، ج:2، ص:610، ط:دار الكتب العلمية - بيروت)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"و أما الأذكار فالأذكار التي يتعلق سجود السهو بها أربعة: القراءة، والقنوت، والتشهد، وتكبيرات العيدين."

( كتاب الصلاة، فصل بيان سبب وجوب سجود السهو، ج:1، ص:167، ، ط: دار الكتب العلمية)

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح میں ہے:

"و" ‌يجب "‌القيام إلى" الركعة "الثالثة من غير تراخ بعد" قراءة "التشهد" حتى لو زاد عليه بمقدار أداء ركن ساهيا يسجد للسهو لتأخير واجب القيام للثالثة ."

(‌‌كتاب لصلوة، باب شروط الصلاة وأركانها، فصل في بيان واجب الصلاة، ص251، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

وفیہ ایضاً:

"ولم يبينوا قدر الركن وعلى قياس ما تقدم أن‌يعتبر ‌الركن مع سنته وهو مقدر بثلاث تسبيحات."

(‌‌كتاب لصلوة، باب سجود السهو ، ص474، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق  میں ہے:

"(قوله: وقدر الكثير ما يؤدى فيه ركن) أي بسنته كما قيده في المنية قال شارحها ابن أمير حاج أي بما له من السنة أي بما هو مشروع فيه من الكمال السني كالتسبيحات في الركوع والسجود مثلا وهو تقييد غريب ووجهه قريب ولم أقف على التقييد بكونه قصيرا أو طويلا...أي تقييد الركن أي هل المراد منه قدر ركن طويل بسنته كالقعود الأخير أو القيام المشتمل على قراءة المسنون أو قدر ركن قصير كالركوع أو السجود بسنته أي قدر ثلاث تسبيحات وبالثاني جزم البرهان إبراهيم الحلبي في شرح المنية حيث قال وذلك مقدار ثلاث تسبيحات."

 (كتاب الصلوة، باب شروط الصلاة، ج:1، ص:287، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411101006

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں