بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قادیانی کے گھر میں سولر وغیرہ لگانے کا کام کرنے اور کام کے دوران ان کی چائے پینے کا حکم


سوال

میرے بھتیجے ایک مرزائی قادیانی کے گھر میں سولر کا کام کر رہے ہیں، چنیوٹ میں کبھی کبھار ان کے آفس میں میٹنگ کے دوران چائے آجاتی ہے تو وہ پی لیتے ہیں، کیا وہ ان کے لیے حلال ہے یا نہیں؟  وہ کام کسی کنٹریکٹر کے ذریعے کر رہے ہیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں خود چائے حرام ہونے کی تو کوئی وجہ نہیں ہے، البتہ قادیانی باجماع علماء بدترین قسم کے ملحد و زندیق ہیں، اور دجل و فریب سے کام لیتے ہوئے سادہ لوح مسلمانوں کے ایمان پر ڈاکہ ڈالتے ہیں، اس لیے ان کے ساتھ میل ملاپ، معاملات، ملازمت، ان کی دعوت کھانا، اور ان کے گھر جاکر کام کرنا وغیرہ سب ناجائز ہیں، اس لیے سائل کے بھتیجوں پر لازم ہے کہ ان کے ہاں کام کرنے  اور ان سے کھانے پینے سے گریز کریں۔

کفا یت  المفتی میں ہے:

’’اگر دین کو فتنے سے محفوظ رکھناچاہتے ہو تو(قادیانیوں سے ) قطع تعلق کرلینا چاہئے، ان سے رشتہ ناتا کرنا، ان کے ساتھ خلط ملط رکھنا، جس کا دین اورعقائد پر اثر پڑے ناجائز ہے۔‘‘

(ج:1، ص:365،ط: دارالاشاعت)

مفتی  رشید احمد لدھیانوی  رحمہ اللہ احسن الفتاوی میں ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں کہ:

’’ایسا شخص جو صوم صلوٰۃ کا پابند ہے، لیکن اس کے تعلقات قادیانی جماعت کے ساتھ ہیں، اگر وہ دل سے بھی ان کو اچھا سمجھتا ہو، تو وہ مرتد ہے اور بلا شبہ خنزیر سے بدتر ہے ، اس سے تعلقات رکھنا ناجائزہے ، اگر وہ مسجد کے  لیے چندہ دیتا ہے تو اسے وصول کرنا جائز نہیں ۔ اور اگر وہ قادیانیوں کے عقائد سے متفق نہیں اور نہ ہی ان کو اچھا سمجھتا ہے ، بلکہ صرف تجارت وغیرہ ، دنیوی معاملات کی حد تک ان سے تعلق رکھتاہے، تو یہ شخص مرتد نہیں ، البتہ بہت سخت مجرم اور فاسق ہے ۔ قادیانی زندیق ہیں جن کا حکم عام مرتد سے بھی زیادہ سخت ہے ، مرتد اور اس کا بیٹا اپنے مال کے مالک نہیں ، لہذا ان کی بیع وشراء ، اجارہ و استجارہ ، ہبہ کا لین دین وغیرہ کوئی تصرف بھی صحیح نہیں ، البتہ پوتے نے جو مال خود کمایا ہو وہ اس میں تصرف کرسکتا ہے ، مگر زندیق کا پوتا بھی اپنے کمائے ہوئے مال کا مالک نہیں اور اس کے تصرفات نافذ نہیں ، اس لئے قادیانی سے کسی ذریعہ سے بھی کوئی مال لیا تو وہ حلال نہیں ۔تجارت وغیرہ معاملات کے علاوہ بھی قادیانیوں کے ساتھ کسی قسم کا کوئی میل جول رکھنا جائز نہیں ۔ اس میں یہ مفاسد ہیں :اس میں قادیانیوں کے ساتھ تعاون ہے ،اس قسم کے معاملات میں عوام قادیانیوں کو مسلمانوں کا ایک فرقہ سمجھنے لگتے ہیں ،اس طرح قادیانیوں کو اپنا جال پھیلانے کے مواقع ملتے ہیں ،اس لئے قادیانیوں سے لین دین اور دیگر ہر قسم کے معاملات میں قطع تعلق ضروری ہے ان سے تعلقات رکھنے والا آدمی اگر چہ ان کو برا سمجھتا ہو قابل ملامت ہے ، ایسے شخص کو سمجھانا دوسرے مسلمانوں پر فرض ہے ، واللہ تعالی اعلم ۔‘‘

(کتاب الایمان والعقائد،قادیانیوں سے تعلق رکھنے کا حکم ،ج:1،ص:46،ط:سعید)

اکفارالملحدین میں ہے:

"وثانیها: إجماع الأمّة علی تکفیر من خالف الدین المعلوم بالضرورة."

(مجموعۃ رسائل الکاشمیری،ج:3،ص:81،ط:ادارة القرآن)

المسوی شرح المؤطا میں ہے:

"و إن اعترف به أي الحق ظاهرًا لكنه یفسر بعض ما ثبت من الدین ضرورة بخلاف ما فسره الصحابة و التابعون و اجتمعت علیه الأمّة فهو الزندیق."

(ج:،ص:13،ط: رحیمیہ دہلی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101679

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں