بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 شوال 1445ھ 17 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قبرستان کے لیے وقف شدہ زمین سے زراعت وغیرہ کے ذریعہ فائدہ اٹھانے کا حکم


سوال

اگر کوئی شخص قبرستان کے لیے زمین وقف کردے تو کیا کوئی اس وقف شدہ زمین سے فائدہ اٹھا سکتا ہے،  مطلب زراعت وغیرہ کرسکتا ہے اس زمین پر؟

جواب

  وقف جب درست اور صحیح ہوجائے  تو موقوفہ چیز قیامت تک کے لیے  واقف کی ملکیت سے  نکل کر اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں داخل ہوجاتی ہے، اس کے بعد اس کی خرید وفروخت کرنا، ہبہ کرنا، کسی کو مالک بنانا  اور اس کو وراثت میں تقسیم کرنا یا اس سے کسی بھی قسم کا ایسا فائدہ  اٹھانا جو وقف کی جہت کے خلاف ہو جائز نہیں ہوتا،لہٰذا چوں کہ واقف نے جو زمین  جس   جہت اور مقصد کے لیے   وقف کی ہو اس کو اسی مقصد کے لیے استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے، اس لیے قبرستان کے  لیے وقف شدہ زمین پر کسی شخص کا زراعت وغیرہ کے ذریعہ کسی بھی قسم کا فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے۔ 

"فتح القدیر "میں ہے:

"وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى فيزول ملك الواقف عنه إلى الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد، فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولايورث".

(6 / 203)  کتاب الوقف، ط: دار الفکر)

"فتاوی عالمگیری" میں ہے:

"وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد، فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولا يورث، كذا في الهداية. وفي العيون واليتيمة: إن الفتوى على قولهما، كذا في شرح أبي المكارم للنقاية".

(2 / 350، کتاب الوقف، ط: رشیدیہ)

"فتاوی شامی" میں ہے:

"شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة ووجوب العمل به".

 (فتاوی شامی، 4/433، کتاب الوقف، ط: سعید)

"فتاوی عالمگیری" میں ہے:

"البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناءً ووقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعاً لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه، والأصح أنه لا يجوز، كذا في الغياثية".

(2 / 362، الباب الثانی فیما یجوز وقفہ، ط: رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210200468

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں