بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قبر پکی کرنا


سوال

قبر پکی کرنا شریعت کی رو سے کیساہے؟

جواب

قبر کو  پختہ بنانا جائز نہیں ہے، البتہ صرف  دائیں  بائیں  سے کوئی  پتھر  لگادینا  کہ اصل قبر  (یعنی جتنے حصے میں میت دفن ہے) کچی مٹی کی ہو، اور اردگرد پتھر، یا بلاک وغیرہ سے منڈیر نما بنا دیا جائے یا معمولی سا احاطہ بنا دیا جائے کہ قبر کا نشان  مٹ نہ  جائے، یا اردگر زمین پر پختہ فرش کردیا جائے؛ تاکہ قبر واضح ہوجائے، اس کی اجازت ہے، لیکن اس میں بھی دو باتوں کا خیال ضروری ہے: 

1: اس کے لیے سادہ پتھر استعمال کیا جائے زیب زینت والا کوئی پتھر نہ ہو۔ نیز آگ پر پکی ہوئی اینٹیں بھی نہ لگائی جائیں۔

2: قبر کے اوپر قبہ نما یا حجرہ بناکر چھت نہ ڈالی جائے۔

(صحیح مسلم، ۱/۳۱۲، سنن أبي داوٴد۲/۴۶۰، سنن الترمذي ۱/۲۰۳، سنن النسائي۱/۲۲، سنن ابن ماجة۱/۱۱۲)

’’عن جابر رضي اللّٰه عنه نهی رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم أن یجصص القبر وأن یعقد علیه وأن یبنی علیه‘‘

(زاد المعاد۱/۵۰۵، فصل في تعلیة القبور، ط: موٴسسة الرسالة، بیروت) :

’’ولم یکن من هدیه صلی اللّٰه علیه وسلم تعلیة القبور ولا بناء ها بآجر، ولا بحجر ولبن، ولا تشییدها، ولا تطیینها، ولا بناء القباب علیها، فکل هذا بدعة مکروهة مخالفة لهدیه صلی اللّٰه علیه وسلم، وقد بعث علي بن أبي طالب إلی الیمن ألا یدع تمثلاً إلا طمسه، ولا قبر مشرفاً إلا سَوَّاه فسنته صلی اللّٰه علیه وسلم تسویة هذه القبور المشرفة کلها، ونهى أن یجصص القبر، وأن یبنی علیه، وأن یکتب علیه، وکانت قبور أصحابه لا مشرفة ولا لاطئة، وهکذا کان قبره الکریم وقبر صاحبیه، فقبره صلی اللّٰه علیه وسلم مُسَنَّمٌ مبطوح ببطحاء العرصة الحمراء لا مبنيَّ ولا مطینَ، وهکذا کان قبر صاحبیه.‘‘

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206200040

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں