بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پرانی قبرستان سے لاش یا ہڈیاں نکل آئیں تو کیا حکم ہے؟


سوال

پرانے قبرستان  میں میت کو دفن  کرنا جائز ہے؟ اگر کوئی لاش نکل آۓ یا   ہڈیاں تو کیا کیا جائے؟

جواب

صورت مسئولہ میں اگر  پرانے قبرستان کی  قبریں اتنی پرانی ہوچکی ہوں کہ میت بالکل مٹی بن چکی ہو تو اس صورت میں جگہ کی تنگی کی وجہ سے اس قبر کو کھود کر اس میں نئی میت کو دفن کرنا جائز ہوگا، اگر سابقہ میت کی ہڈیاں وغیرہ کچھ قبر میں موجود ہوں تو انہیں قریب ہی دفن کردیا جائے یا اسی قبر میں ایک طرف علیحدہ کر کے ان ہڈیوں اور جدید میت کے درمیان مٹی کی آڑ بنادی جائے، لیکن اگر قبر اتنی پرانی نہ ہو کہ سابقہ میت  بالکل گلی یا سڑی نہ ہو تو پھر اس قبر کو کھود کر اس میں دوسری میت کو دفنانا جائز نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين  میں ہے: 

''لا يدفن اثنان في قبر إلا لضرورة، وهذا في الابتداء، وكذا بعده. قال في الفتح: ولا يحفر قبر لدفن آخر إلا إن بلي الأول فلم يبق له عظم، إلا أن لا يوجد، فتضم عظام الأول، ويجعل بينهما حاجز من تراب. ويكره الدفن في الفساقي اهـ وهي كبيت معقود بالبناء يسع جماعةً قياماً لمخالفتها السنة، إمداد. والكراهة فيها من وجوه: عدم اللحد، ودفن الجماعة في قبر واحد بلا ضرورة، واختلاط الرجال بالنساء بلا حاجز، وتجصيصها، والبناء عليها، بحر. قال في الحلية: وخصوصاً إن كان فيها ميت لم يبل؛ وما يفعله جهلة الحفارين من نبش القبور التي لم تبل أربابها، وإدخال أجانب عليهم فهو من المنكر الظاهر، وليس من الضرورة المبيحة لجمع ميتين فأكثر ابتداءً في قبر واحد قصد دفن الرجل مع قريبه أو ضيق المحل في تلك المقبرة مع وجود غيرها، وإن كانت مما يتبرك بالدفن فيها فضلاً عن كون ذلك ونحوه مبيحاً للنبش، وإدخال البعض على البعض قبل البلى مع ما فيه من هتك حرمة الميت الأول، وتفريق أجزائه، فالحذر من ذلك اهـ: وقال الزيلعي: ولو بلي الميت وصار تراباً جاز دفن غيره في قبره وزرعه والبناء عليه اهـ. قال في الإمداد: ويخالفه ما في التتارخانية: إذا صار الميت تراباً في القبر يكره دفن غيره في قبره ؛ لأن الحرمة باقية، وإن جمعوا عظامه في ناحية، ثم دفن غيره فيه تبركاً بالجيران الصالحين، ويوجد موضع فارغ يكره ذلك. اهـ. قلت: لكن في هذا مشقة عظيمة، فالأولى إناطة الجواز بالبلى؛ إذ لا يمكن أن يعد لكل ميت قبر لا يدفن فيه غيره، وإن صار الأول تراباً لاسيما في الأمصار الكبيرة الجامعة، وإلا لزم أن تعم القبور السهل والوعر، على أن المنع من الحفر إلى أن يبقى عظم عسر جداً وإن أمكن ذلك لبعض الناس، لكن الكلام في جعله حكماً عاماً لكل أحد، فتأمل''.

(كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، مطلب في دفن الميت، ج: 2، ص: 233، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101824

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں