بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پب جی (PUBG) گیم کھیلنے کے مطلقًا ناجائز ہونے پر ایک اشکال کا جواب


سوال

 آپ  لوگوں  نے جو فتوی دیا ہے وہ اس بنیاد پر دیا ہے کہ اگر کوئی گیم میں اس قدر مشغول ہو جائے کہ اسے نہ فرائض کا خیال رہے  نہ کسی اور کام کا اور وہ گیم اس کے دماغ پر اثر کرے، لیکن اگر کوئی شخص فرائض ادا کرے اور سارے کام کرے اور پھر صرف ایک یا دو گھنٹے اس نیت سے یہ گیم کھیلے کہ میرا دماغ تیز ہوگا اور اس کا مقصد بھی اچھا ہو تو کیا پھر بھی ناجائز ہے ؟یا مباح ہے؟

جواب

 دینِ اسلام کھیل اور تفریح سے مطلقاً منع نہیں کرتا، بلکہ اچھی اور صحت مند تفریح کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، چناچہ بعض کھیل ایسے ہیں  جن کی اجازت خود نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے،  جیساکہ سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن عقبة بن عامر قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن الله عز وجل يدخل بالسهم الواحد ثلاثة نفر الجنة، صانعه يحتسب في صنعته الخير، والرامي به، ومنبله. وارموا، واركبوا، وأن ترموا أحب إلي من أن تركبوا. ليس من اللهو إلا ثلاث: تأديب الرجل فرسه، وملاعبته أهله، ورميه بقوسه ونبله، ومن ترك الرمي بعد ما علمه رغبة عنه، فإنها نعمة تركها، « أو قال:» كفرها".

 (1/363، کتاب الجہاد، ط: رحمانیہ)

         مذکورہ حدیث میں تین کھیلوں کو لہو لعب سے مستثنیٰ کیا گیا ہے، کیوں کہ  ”لہو “    تو اس  کام کو کہا جاتا   ہے جس میں کوئی دینی یا دنیوی فائدہ نہ ہو ، جب کہ یہ تینوں  مفید کام ہیں جن سے بہت سے دینی اور دنیوی فوائد وابستہ ہیں ، تیراندازی اور گھوڑے کو سدہانا تو جہاد کی تیاری میں داخل ہے اور بیوی کے ساتھ  ملاعبت  توالد و تناسل کے مقصد کی تکمیل ہے، چناچہ فقہاءِ کرام نے  ذخیرہ احادیث کو سامنے رکھ کر   چند اصول مرتب کیے ہیں ،  جن پر غور کرنے سے موجودہ زمانے کے تمام کھیلوں کا حکم معلوم ہوجاتا ہے، وہ اصول درج ذیل ہیں:

1۔۔  وہ کھیل بذاتِ خود جائز ہو، اس میں کوئی ناجائز   بات نہ ہو۔

2۔۔اس کھیل میں کوئی دینی یا دینوی منفعت (مثلاً جسمانی  ورزش وغیرہ)  ہو، محض لہو لعب یا وقت گزاری کے لیے نہ کھیلا جائے۔

3۔۔ کھیل میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جاتا  ہو۔

4۔۔کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے  کہ جس سے شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو۔

  تکملۃ فتح الملہم میں ہے:

"فالضابط في هذا ... أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح  مفيد في المعاش ولا المعاد حرام أو مكروه تحريماً، ... وما كان فيه غرض  ومصلحة دينية أو دنيوية فإن ورد النهي  عنه من الكتاب  أو السنة ... كان حراماً أو مكروهاً تحريماً، ... وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس فهو بالنظر الفقهي على نوعين: الأول: ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه، ومفاسده أغلب على منافعه، وأنه من اشتغل  به ألهاه عن ذكر الله  وحده  وعن الصلاة والمساجد، التحق ذلك بالمنهي عنه؛ لاشتراك العلة، فكان حراماً أو مكروهاً. والثاني: ماليس كذلك، فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التهلي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح، بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه ... وعلى هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل على معصية أخرى، وما لم يؤد الانهماك فيها إلى الإخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه".

 (تکملہ فتح المہم، قبیل کتاب الرؤیا، (4/435) ط:  دارالعلوم کراچی)

خلاصہ یہ ہوا کہ کسی بھی قسم کے کھیل کے جائز ہونے کے لیے  مذکورہ بالا تمام شرائط مکمل ہونے کے  ساتھ  ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کھیل ہر قسم کے ناجائز اور خلافِ شرع امور سے خالی ہو، لہٰذا اگر کسی کھیل میں جواز کی کوئی ایک آدھ شرط پائی جائے، لیکن دیگر شرائط مفقود ہوں یا اس کھیل میں خلافِ  شرع امور کا ارتکاب کرنا پڑتا ہو  تب بھی وہ کھیل ناجائز ہی رہے گا، چنانچہ  پب جی (PUBG) گیم  بھی کھیل کے جواز  کی تمام شرائط پر پورا نہ اترنے اور متعدد خلافِ  شرع امور  (مثلًا  جاندار کی تصویر وغیرہ)  پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے، کیوں کہ اس کے کھیلنے میں نہ کوئی دینی اور نہ ہی کوئی دنیوی فائدہ ہے، مثلاً جسمانی  ورزش وغیرہ، یہ محض لہو  و لعب اور وقت گزاری  کے لیے کھیلا جاتا ہے، جو لایعنی کام ہے، اور  اس کو کھیلنے والے عام طور پر اس قدر عادی ہوجاتے ہیں کہ پھر انہیں اس کا نشہ سا ہوجاتا ہے، اور ایسا انہماک ہوتا ہے کہ وہ کئی دینی بلکہ دنیوی امور سے بھی غافل ہوجاتے ہیں، شریعتِ مطہرہ ایسے لایعنی لہو  و لعب پر مشتمل  کھیل  کی اجازت نہیں دیتی، پس اگر کوئی تھوڑی دیر کے لیے ذہن فریش کرنے کی نیت سے کھیلتا ہے تب بھی یہ گیم کھیلنا ناجائز ہی ہوگا، کیوں کہ ایک تو اس طرح کے گیموں سے ذہن فریش نہیں ہوتا، بلکہ مزید الجھ جاتا ہے، جب کہ اس میں مزید شرعی قباحت یہ بھی ہے کہ یہ جان دار کی تصاویر پر مشتمل ہوتا ہے،  لہذا پب جی اور اس جیسے دیگر  گیم کھیلنا شرعاً جائز نہیں  ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203200404

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں