بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

پوتے کی میراث کا مسئلہ


سوال

کیا پوتا جائیداد میں وارث ہوتا ہے؟

جواب

سائل کے سوال سے مراد اگر یہ ہے کہ کسی مرحوم شخص کے بیٹوں کی موجودگی میں اس کی متروکہ جائیداد میں اس کے پوتے بھی ورثاء میں شامل ہوں گے یا نہیں ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ کسی مرحوم شخص کے بیٹوں کے زندہ ہوتے ہوئے اس شخص کا پوتا اس کی جائیداد میں شرعاً بطورِ وارث حق دار نہیں ہوگا؛ کیوں کہ وراثت کا استحقاق مورِث کی موت کے بعد  ثابت ہوتا ہے؛  اس لیے کسی شخص کے انتقال کے وقت اس کے جو ورثاء موجود ہوں  وہی اس کے وارث ہوتے ہیں، اس کی زندگی میں فوت ہونے والے اس کے وارث نہیں بنتے ، لہذا اگر کسی بیٹے کا انتقال والد کی زندگی میں ہی ہوجائے تو اس کے بچے (اپنے چچا کی موجودگی میں) اپنے دادا کی میراث میں شرعاً حق دار نہیں ہوں گے،  ایسی صورت میں اگر پوتے ضرورت مند ہوں اور دادا کو اندازا ہوکہ میرے بعد میرے بیٹے پوتوں کو  تبرعاً کچھ نہیں دیں گے تو دادا کو  چاہیے کہ وہ ایک تہائی ترکہ کے اندر اندر پوتوں کے لیے وصیت کرجائے، لیکن اگر دادا وصیت کے بغیر انتقال کرجائے تو اس کی وراثت میں پوتوں کا شرعاً کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ ہاں اگر  مرحوم کے  بالغ ورثاء  مرحوم کےپوتوں کو اپنی رضامندی سے کچھ دے دیں تو یہ ان کی طرف سے تبرع واحسان ہوگا اور ثواب کا باعث ہوگا۔

اور اگر مرحوم کا کوئی بیٹا موجود نہ ہو صرف بیٹیاں ہوں تو پوتا وارث بنتا ہے ،تمام ورثاء کی فہرست تفصیل سے واضح انداز میں لکھ کر متعیّن حکم معلوم کر سکتے ہیں۔

صحيح بخاري میں ہے  :

"وقال زيد: «ولد الأبناء بمنزلة الولد، إذا لم يكن دونهم ولد ذكرهم كذكرهم، وأنثاهم كأنثاهم، يرثون كما يرثون، ويحجبون كما يحجبون، ولا يرث ولد الابن مع الابن»".

(باب میراث ابن الابن: ج:8، ص: 151، ط: دار طوق النجاہ)

تکملہ فتح الملہم شرح صحیح مسلمؒ میں ہے:

"وقد ذکر الإمام أبو بکر الجصاص الرازي رحمه الله في أحکام القرآن، والعلامة العیني في عمدة القاري الإجماع علي أن الحفید لا یرث مع الابن".

(باب إلحقوا الفرائض بأهلها فما بقي فلأولى رجل ذكر، مسئلة ميراث الحفيد عند وجود الإبن :ج:2،ص:15، ط : مکتبة دار العلوم کراتشی)

البحر الرائق   میں ہے:

"وأما بيان الوقت الذي يجري فيه الإرث فنقول: هذا فصل اختلف المشايخ فيه، قال مشايخ العراق: الإرث يثبت في آخر جزء من أجزاء حياة المورث، وقال مشايخ بلخ: الإرث يثبت بعد موت المورث".

( کتاب الفرائض: ج:9، ص:346، ط: رشیدیه)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144402100143

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں