بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پلاٹ کرایہ پر لے کر اس کا کچھ حصہ دوسرے شخص کو کرایہ پر دینا


سوال

 زید نے عمرو کو ۱۱۵۰۰ فٹ پلاٹ دس سال کے لیے  کرایہ پر دیا،  فی فٹ  کے لیے   ۲.۵ روپے ماہانہ کرایہ مقرر کیا ، جس کا مجموعی کرایہ  ۲۸۷۵۰ بنتا ہے،  اب عمرو آگے اس پلاٹ کا کچھ حصہ یا آدھا حصہ بکر کو کرایہ پر دے رہاہے،  عمرو،  بکر سے ۳۰۰۰۰ وصول کررہاہے یا اصل کرایہ(۲۸۷۵۰) سے کم کرایہ وصول کرہاہے۔ کیا عمرو کے لیے  یہ کرایہ وصول کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز نہیں تو متبادل صورت کیا ہوسکتی  ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ ميں  عمرو کا زید  سے پلاٹ کرایہ پر لینے کے بعد اس کا کچھ حصہ یا آدھا حصہ  بکر کو کرایہ پر دینا درج ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہے:

  1.  کسی ایسے شخص کو  پلاٹ  کرایہ پر نہیں دے، جس کے کام سے پلاٹ  میں نقصان ہو۔
  2.  پلاٹ میں سے  جتنے فٹ   آگے بکر کو کرایہ پر دے رہا ہے ، اس  کا کرایہ، اصل کرایہ (یعنی جو عمرو کا زید سے طے ہوا ہے)سے زیادہ نہ ہو، ورنہ زیادتی  عمرو  کے لیے حلال نہیں ہوگی۔

ہاں دو صورتوں میں  عمرو ، بکر  کو   پہلے کرایہ سے زیادہ  پر بھی کرایہ پر دے سکتا ہے:

  1. دوسرا کرایہ پہلے کی جنس میں سے نہ ہو، یعنی پہلے کرایہ روپے میں ہو تو اب آگے کرایہ پر دیتے  ہوئے پیسے کے بجائے کسی اور چیز پر کرایہ مقرر کیا جائے ۔
  2. عمرو نے اس پلاٹ  میں  کچھ اضافی  کام  کروایا ہو ،جس کا وجود ہو (مثلاً پلاٹ کی چار دیواری بنادی ہو، یا اس میں کاریز لگادی،یا موٹر لگاد  ی یا  رنگ وروغن یادیگر تعمیراتی کام وغیرہ ) کرایا ہو، تو ایسی صورت میں اس کے لیے  پہلے کرایہ سے زیادہ پر بھی کرایہ پر دینا جائز ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(تصح) (إجارة حانوت) أي دكان ودار بلا بيان ما يعمل فيها) لصرفه للمتعارف (و) بلا بيان (من يسكنها) فله أن يسكنها غيره بإجارة وغيرها كما سيجيء (وله أن يعمل فيهما) أي الحانوت والدار (كل ما أراد) فيتد ويربط دوابه ويكسر حطبه ويستنجي بجداره ويتخذ بالوعة إن لم تضر ويطحن برحى اليد وإن به ضر به يفتى قنية (غير أنه لا يسكن) بالبناء للفاعل أو المفعول (حدادا أو قصارا أو طحانا من غير رضا المالك أو اشتراطه) ذلك (في) عقد (الإجارة) ؛ لأنه يوهن البناء فيتوقف على الرضا.(وإن اختلفا في الاشتراط فالقول للمؤجر) كما لو أنكر أصل العقد (وإن أقاما البينة فالبينة بينة المستأجر) لإثباتها الزيادة خلاصة.وفيها استأجر للقصارة فله الحدادة إن اتحد ضررهما، ولو فعل ما ليس له لزمه الأجر، وإن انهدم به البناء ضمنه ولا أجر؛ لأنهما لا يجتمعان. (وله السكنى بنفسه وإسكان غيره بإجارة وغيرها) وكذا كل ما لا يختلف بالمستعمل  بطل التقييد؛ لأنه غير مفيد، بخلاف ما يختلف به كما سيجيء، ولو آجر بأكثر تصدق بالفضل إلا في مسألتين: إذا آجرها بخلاف الجنس أو أصلح فيها شيئاً.

(قوله: بخلاف الجنس) أي جنس ما استأجر به وكذا إذا آجر مع ما استأجر شيئا من ماله يجوز أن تعقد عليه الإجارة فإنه تطيب له الزيادة كما في الخلاصة. (قوله: أو أصلح فيها شيئا) بأن جصصها أو فعل فيها مسناة وكذا كل عمل قائم؛ لأن الزيادة بمقابلة ما زاد من عنده حملا لأمره على الصلاح كما في المبسوط والكنس ليس بإصلاح وإن كرى النهر قال الخصاف تطيب وقال أبو علي النسفي: أصحابنا مترددون وبرفع التراب لاتطيب وإن تيسرت الزراعة ولو استأجر بيتين صفقة واحدة وزاد في أحدهما يؤجرهما بأكثر ولو صفقتين فلا خلاصة ملخصاً".

(6/ 27، كتاب الاجارة، ط: سعيد)

 فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وإذا استأجر دارا وقبضها ثم آجرها فإنه يجوز إن آجرها بمثل ما استأجرها أو أقل، وإن آجرها بأكثر مما استأجرها فهي جائزة أيضا إلا إنه إن كانت الأجرة الثانية من جنس الأجرة الأولى فإن الزيادة لا تطيب له ويتصدق بها، وإن كانت من خلاف جنسها طابت له الزيادة ولو زاد في الدار زيادة كما لو وتد فيها وتدا أو حفر فيها بئرا أو طينا أو أصلح أبوابها أو شيئا من حوائطها طابت له الزيادة، وأما الكنس فإنه لا يكون زيادة وله أن يؤاجرها من شاء إلا الحداد والقصار والطحان وما أشبه ذلك مما يضر بالبناء ويوهنه هكذا في السراج الوهاج."

(4 / 425، كتاب الاجارة، الباب السابع في إجارة المستأجر، ط:رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101564

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں