بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پیشاپ کے مقام پر آنے والی تری کا حکم


سوال

میں نےنماز کی کتاب میں یہ پڑھا ہے کہ مردوں میں پیشاب کے مقام پر اکثر تری موجود رہتی ہے ، یہ تری پاک ہے اور اس سے وضو نہیں ٹوٹتا ؟ 

جواب

استنجا سے خوب اچھی طرح پاکی حاصل کرنا لازم ہے، یعنی جلد بازی نہیں کرنی چاہیے، لیکن پیشاب کی نالی میں اگر تری موجود ہو اور آدمی اچھی طرح استنجا کرکے فارغ ہوگیا تو نالی میں اس تری کے موجود رہنے سے وضو پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ البتہ اگر پیشاب کی نالی کے بالکل آخری سرے پر  پیشاب کا قطرہ ظاہر ہوجائے تو اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، اگر وضو کرلینے کے بعد عضو کے بالکل آخری سرے پر پیشاب کے قطرے ظاہر نہ ہوں، بلکہ صرف نالی کی اندرونی جانب تر ہو تو اس سے بھی وضو نہیں ٹوٹتا ہے، اس لیے اگر پیشاب کی نالی کے سرے پر پیشاب کا قطرہ نظر نہ آرہا ہو تو پھر پیشاب کی نالی کو دبا کر چیک کرنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن اگر کسی نے  پیشاب کی نالی کو دباکر چیک کیا، مثلاً  کوئی کپڑا یا ٹشو پیپر یا ہاتھ سے چیک کیا اور قطرہ نکل آیا یا خود بخود نالی سے کوئی قطرہ نکل گیا اور اس کی وجہ سے پیشاب کا قطرہ نالی کے سرے پر ظاہر ہوگیا یا کپڑے، ٹشو یا ہاتھ وغیرہ پر تری لگ گئی تو اس سے وضو ٹوٹ جائے گا اور نماز کی حالت میں ایسا ہوتو نماز بھی فاسد ہوجائے گی، لیکن اگر کپڑے، ٹشو یا ہاتھ وغیرہ سے دبا کر چیک کرنے سے پیشاب کا قطرہ نالی کے سرے پر ظاہر نہیں ہوا یا نالی میں تری محسوس ہوئی مگر کوئی قطرہ عضو سے باہر نہیں نکلا تو اس صورت میں وضو نہیں ٹوٹے گا۔

فتاوی شامی میں ہے :

"ثم المراد بالخروج من السبيلين مجرد الظهور وفي غيرهما عين السيلان ولو بالقوة. (قوله: مجرد الظهور) من إضافة الصفة إلى الموصوف: أي الظهور المجرد عن السيلان، فلو نزل البول إلى قصبة الذكر لاينقض لعدم ظهوره، بخلاف القلفة فإنه بنزوله إليها ينقض الوضوء، وعدم وجوب غسلها للحرج، لا لأنها في حكم الباطن كما قاله الكمال ".

(کتاب الطہارۃ، 1/ 135، ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

"(كما) ينقض (لو حشا إحليله بقطنة وابتل الطرف الظاهر) هذا لو القطنة عالية أو محاذية لرأس الإحليل وإن متسفلة عنه لاينقض، وكذا الحكم في الدبر والفرج الداخل (وإن ابتل) الطرف (الداخل لا) ينقض ولو سقطت؛ فإن رطبه انتقض، وإلا لا. (قوله: إحليله) بكسر الهمزة مجرى البول من الذكر بحر (قوله: هذا) أي النقض بما ذكر، ومراده بيان المراد من الطرف الظاهر بأنه ما كان عالياً عن رأس الإحليل أو مساوياً له: أي ما كان خارجاً من رأسه زائداً عليه أو محاذياً لرأسه لتحقق خروج النجس بابتلاله؛ بخلاف ما إذا ابتل الطرف وكان متسفلاً عن رأس الإحليل أي غائباً فيه لم يحاذه ولم يعل فوقه، فإن ابتلاله غير ناقض إذا لم يوجد خروج فهو كابتلال الطرف الآخر.الذي في داخل القصبة (قوله: والفرج الداخل) أما لو احتشت في الفرج الخارج فابتل داخل الحشو انتقض، سواء نفذ البلل إلى خارج الحشو أو لا للتيقن بالخروج من الفرج الداخل وهو المعتبر في الانتقاض لأن الفرج الخارج بمنزلة القلفة، فكما ينتقض بما يخرج من قصبة الذكر إليها وإن لم يخرج منها كذلك بما يخرج من الفرج الداخل إلى الفرج الخارج وإن لم يخرج من الخارج اهـ شرح المنية (قوله: لاينقض) لعدم الخروج (قوله: ولو سقطت إلخ) أي لو خرجت القطنة من الإحليل رطبة انتقض لخروج النجاسة وإن قلت، وإن لم تكن رطبة أي ليس بها أثر للنجاسة أصلاً فلا نقض".

 (کتاب الطہارۃ ، 1/ 148، ط : سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503100968

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں