میں پشاور کا رہائشی ہوں، یہاں چوں کہ روزہ ہم نے مقامی مفتی صاحب کی شہادتیں موصول ہونے کے اعلان کے بعد رکھا تھا، اور سرکاری روزہ ایک دن کے بعد اعلان ہوا تھا تو ابھی عید کا چاند بھی دیکھنے کے لیے مقامی مفتی صاحب نے سرکاری رؤیت ہلال کمیٹی سے ایک دن پہلے اجلاس بلایا ہے تو اگر مقامی طور پر شہادتیں موصول ہوجائیں اور عید کا اعلان کردیں اور سرکاری طور پر عید کا اعلان نہ ہو تو کیا ہم مقامی مفتی صاحب کے اعلان پر عید کر سکتے ہیں؟
کسی علاقے میں کوئی قاضی یا حکومت کی طرف سے مقرر کردہ کمیٹی پورے ضلع یا صوبے یا پورے ملک کے لیے ہو اور وہ شرعی شہادت موصول ہونے پر چاند نظر آنے کا اعلان کردے تو اس کے فیصلے پر اپنی حدود اور ولایت میں ان لوگوں پرجن تک فیصلہ اور اعلان یقینی اور معتبر ذریعے سے پہنچ جائے عمل کرنا واجب ہوگا، چوں کہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی قاضی شرعی کی حیثیت رکھتی ہے، لہذا شہادت موصول ہونے پر اگر وہ اعلان کردے تو ملک میں جن لوگوں تک یہ اعلان معتبر ذرائع سے پہنچ جائے ، ان پر روزہ رکھنا یا عید کرنا لازم ہوگا۔
مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے علاوہ غیر مجاز ، پرائیویٹ کمیٹیاں رؤیت ہلال کا فیصلہ کرنے میں خود مختار نہیں ہیں، اور ان کا فیصلہ دوسرے لوگوں کے لیے قابل عمل نہیں ہے، اس لیے ان کو ولایتِ عامہ حاصل نہیں ہے، اور ان کا اعلان عام لوگوں کے لیے حجت نہیں ہے۔ لہٰذا روزہ و عیدین کے تعین کے بارے میں مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کا فیصلہ ہی معتبر ہے اور مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے فیصلہ کی پاس داری کرنا ملک کے پاشندوں پر لازم ہے، جب کہ کسی ایسی نجی کمیٹی جسے ولایتِ عامہ حاصل نہ ہو کے فیصلہ کی پاس داری کرنا پاکستانیوں پر لازم نہیں، پس رمضان کا آغاز و اختتام مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے فیصلہ کے مطابق کرنا آپ لوگوں پر لازم ہے، اس لیے سرکاری طور پر عید کا اعلان ہونے سے پہلے آپ لوگوں کے لیے عید کرنا درست نہیں ہے۔
نیل الأوطار میں ہے:
"وثانيها: أنه لايلزم أهل بلد رؤية غيرهم إلا أن يثبت ذلك عند الإمام الأعظم فيلزم كلهم؛ لأن البلاد في حقه كالبلد الواحد إذ حكمه نافذ في الجميع، قاله ابن الماجشون". (4 / 230، باب الهلال إذا رآه أهل بلدة هل يلزم بقية البلاد الصوم، ط؛ دار الحديث، مصر)
فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:
"الفتاوی النسفیة: سئل عن قضاء القاضي برؤیة هلال شهر رمضان بشهادة شاهدین عند الاشتباه في مصر، هل یجوز لأهل مصر آخر العمل بحکمهم؟ فقال:لا، ولایکون مصرآخر تبعاً لهذا المصر، إنما سکان هذا المصر وقراها یکون تبعاً لهم". (3/365، کتاب الصوم، الفصل :2، رؤیۃ الہلال، ط؛ زکریا ، دیوبند)
حضرت مولانا مفتی محمود ؒ ”زبدۃالمقالفیرؤیۃالھلال“ میں تحریر فرماتےمیںہے:
"إذا ثبت الصوم أو الفطر عند حاکم تحت قواعد الشرع بفتوی العلماء أو عند واحد أو جماعة من العلماء الثقات ولاّهم رئیس المملکة أمر رؤیة الهلال، وحکموا بالصوم أو الفطر ونشروا حکمهم هذا في رادیو، یلزم علی من سمعها من المسلمین العمل به في حدود ولایتهم، وأما فیما وراء حدود ولایتهم فلا بد من الثبوت عند حاکم تلک الولایة بشهادة شاهدین علی الرؤیة أو علی الشهادة أو علی حکم الحاکم أو جاء الخبر مستفیضاً، لأن حکم الحاکم نافذ في ولایته دون ما وراءها". (زبدة المقال في رؤیة الهلال، بحواله خیر الفتاوی، 4/118، ط: مکتبة الخیر ملتان)
جواہرالفقہمیںہے:
’’اور جس طرح ایک شہر کے قاضی یا ہلال کمیٹی کا فیصلہ اس شہر اور اس کے مضافات کے لیے واجب العمل ہے، اسی طرح اگر کوئی قاضی یا مجسٹریٹ یا ہلال کمیٹی پورے ضلع یا صوبہ یا پورے ملک کے لیے ہو تو اس کا فیصلہ اپنے اپنے حدود ولایت میں واجب العمل ہوگا‘‘۔(3/484، مسئلہ رؤیت ہلال، ط: مکتبہ دارالعلوم کراچی) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144109202811
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن