بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پیشاب کے قطروں کے مریض کے لیے حکم


سوال

1۔  مجھے پیشاب کے بعد قطرے آتے ہیں تو اس کے لیے ایک مولانا صاحب نے مجھے بتایا کہ آپ ٹشو پیپر رکھ کر قطروں کو آنے سے روکیں؛ تاکہ کپڑے ناپاک نہ ہو اور ہر نماز کے لیے الگ سے وضو کر لیا کریں، کیا ایسا کرنا درست ہیں؟  کیوں کہ میں کافی عرصے سے ایسا کرتا آ رہا ہوں۔

2- دوم یہ کہ اکثر پیشاب کی نالی میں بہت تھوڑی سی نمی رہتی ہے، جو کہ نہ ہی دیکھے بغیر محسوس ہوتی ہے اور نہ ہی قطرہ بن کر باہر آتی ہے، تو کیا اس صورت میں بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے؟

براہ مہربانی راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

1۔جس شخص کو پیشاب کے قطرے آتے ہوں چاہے پیشاب کرنے سے پہلے ہوں یا پیشاب کے بعد ہوں، یہ پیشاب کی بیماری تصور کی جاتی ہے، لیکن یہ شخص شرعاً معذوراس وقت شمار ہوگا جب کہ ایک مرتبہ فرض نماز پڑھنے کا مکمل وقت بھی اس عذر کے بغیر نہ گزرے ، چناں چہ اگرآپ کو یہ قطرے اس تسلسل سے آرہے ہیں کہ درمیان میں اتنا وقفہ بھی نہیں ملتا کہ ایک وقت کی فرض نماز ادا کر سکیں تو اس صورت میں آپ معذور ہیں، معذر کے لیے حکم یہ ہے کہ ہر فرض نماز کے وقت وضو  کرے اور پھر اس وضو سے اس ایک وقت میں جتنے چاہے فرائض اور نوافل ادا کرے اور تلاوتِ قرآنِ کریم کرے، (اس ایک وقت کے درمیان میں جتنے بھی قطرے آجائیں آپ پاک ہی رہیں گے بشرطیکہ کوئی اور سبب وضو کوتوڑنے کانہ پایا جائے) یہاں تک کہ وقت ختم ہوجائے، یعنی جیسے ہی اس فرض نماز کا وقت ختم ہوگا تو آپ کا وضو بھی ختم ہوجائے گا اور پھر اگلی نماز کے لیے دوبارہ وضو کرنا ہوگااور اس صورت میں کوئی کپڑا  یا ٹشو وغیرہ رکھ کر قطروں کو آنے سے روکیں، البتہ نماز سے پہلے اس کپڑے یا ٹشو وغیرہ کو ہٹا دیں۔

اور اگر ان قطروں میں مقدارِ نماز کے برابر تسلسل نہیں ہے یعنی کچھ دیر تک پیشاب کے قطرے آنے کے بعد بند ہوجاتے ہیں یا درمیان میں اتنا وقفہ ہوجاتا ہے کہ جس میں فرض نماز ادا کی جاسکتی ہے  تو آپ شرعاً معذورین میں شامل نہیں ہیں، اس لیے آپ کا وضو اِن قطروں سے ٹوٹ جائے گا اور کپڑے بھی ناپاک ہوجائیں گے اور ان کا دھونا (جب کہ وہ مقدار درہم سے تجاوز کرجائیں) واجب ہوگا۔ اس صورت میں آپ نماز سے کافی پہلے ہی پیشاب کر کے فارغ ہوجائیں اور اس کے بعد پیشاب کے قطروں کے خارج ہونے تک انتظار کریں، جب قطرے بند ہوجائیں اور آپ کو اطمینان حاصل ہوجائے تو پھر اس کے بعد وضو کرکے نماز ادا کریں۔

2۔استنجا سے خوب اچھی طرح پاکی حاصل کرنا لازم ہے، یعنی جلد بازی نہیں کرنی چاہیے، لیکن پیشاب کی نالی میں اگر تری موجود ہو اور آدمی اچھی طرح استنجا کرکے فارغ ہوگیا تو نالی میں اس تری کے موجود رہنے سے وضو پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، البتہ اگر پیشاب کی نالی کے بالکل آخری سرے پر  پیشاب کا قطرہ ظاہر ہوجائے تو اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔

در مختار وحاشیۃ ابن عابدین میں ہے :

"(وصاحب عذر من به سلس) بول لايمكنه إمساكه (أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة)بأن لا يجد في جميع وقتها زمنا يتوضأ ويصلي فيه خاليا عن الحدث (ولو حكما) لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم (وهذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت) ولو مرة (وفي) حق الزوال يشترط (استيعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقيقة) لأنه الانقطاع الكامل ونحوه (لكل فرض) اللام للوقت كما في - {لدلوك الشمس} [الإسراء: 78]- (ثم يصلي) به (فيه فرضا ونفلا) فدخل الواجب بالأولى (فإذا خرج الوقت بطل) أي: ظهر حدثه السابق، حتى لو توضأ على الانقطاع ودام إلى خروجه لم يبطل بالخروج ما لم يطرأ حدث آخر أو يسيل كمسألة مسح خفه.وأفاد أنه لو توضأ بعد الطلوع ولو لعيد أو ضحى لم يبطل إلا بخروج وقت الظهر.(وإن سال على ثوبه) فوق الدرهم (جاز له أن لا يغسله إن كان لو غسله تنجس قبل الفراغ منها) أي: الصلاة (وإلا) يتنجس قبل فراغه (فلا) يجوز ترك غسله، هو المختار للفتوى  وكذا مريض لا يبسط ثوبه إلا تنجس فورا له تركه(و) المعذور (إنما تبقى طهارته في الوقت) بشرطين (إذا) توضأ لعذره و (لم يطرأ عليه حدث آخر، أما إذا) توضأ لحدث آخر وعذره منقطع ثم سال أو توضأ لعذره ثم (طرأ) عليه حدث آخر، بأن سال أحد منخريه أو جرحيه أو قرحتيه ولو من جدري ثم سال الآخر (فلا) تبقى طهارته."

(کتاب الطہارۃ،مطلب فی احکام المعذورین،ج:۱،ص:۳۰۵،سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"شرط ثبوت العذر ابتداء أن يستوعب استمراره وقت الصلاة كاملا وهو الأظهر كالانقطاع لا يثبت ما لم يستوعب الوقت كله حتى لو سال دمها في بعض وقت صلاة فتوضأت ۔۔۔۔ المستحاضة ومن به سلس البول أو استطلاق البطن أو انفلات الريح أو رعاف دائم أو جرح لا يرقأ يتوضئون لوقت كل صلاة ويصلون بذلك الوضوء في الوقت ما شاءوا من الفرائض والنوافل هكذا في البحر الرائق ۔۔۔۔۔ ويبطل الوضوء عند خروج وقت المفروضة بالحدث السابق ۔۔۔۔ إذا كان به جرح سائل وقد شد عليه خرقة فأصابها الدم أكثر من قدر الدم أو أصاب ثوبه إن كان بحال لو غسله يتنجس ثانيا قبل الفراغ من الصلاة جاز أن لا يغسله وصلى قبل أن يغسله وإلا فلا هذا هو المختار."

(کتاب الطہارۃ،الباب السابع فی النجاسۃ واحکامہا،ج:۱،ص:۴۰،۴۱، ط:دارالفکر)

در مختار وحاشیۃ ابن عابدین میں ہے :

"ثم المراد بالخروج من السبيلين مجرد الظهور وفي غيرهما عين السيلان ولو بالقوة.

(قوله: مجرد الظهور) من إضافة الصفة إلى الموصوف: أي الظهور المجرد عن السيلان، فلو نزل البول إلى قصبة الذكر لا ينقض لعدم ظهوره، بخلاف القلفة فإنه بنزوله إليها ينقض الوضوء، وعدم وجوب غسلها للحرج، لا لأنها في حكم الباطن كما قاله الكمال."

(کتاب الطہارۃ،سنن الوضوء،ج:۱،ص:۱۳۵ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308102274

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں