بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پیشاب کے قطروں کی بیماری میں احرام اور نماز پڑھنے کا حکم


سوال

1. پیشاب کے قطروں کی بیماری اور اس حال میں حج اور احرام کیسے ترتیب دیا جائے ، عام دنوں میں اسی صورتِ حال کے ساتھ نماز کیسے ادا کی جائے؟

جواب

اگر کسی شخص کو پیشاب کے قطرے آنے کی ایسی بیماری ہو کہ کسی ایک نماز کے مکمل وقت میں پاک اور باوضو  ہو کر اس وقت کی فرض نماز پڑھنے کا وقت بھی اس عذر کے بغیر  نہ ملے، یعنی درمیان میں اتنا وقفہ بھی نہیں ملتا ہو کہ ایک وقت کی فرض نماز ادا  کرسکے تو ایسا شخص شرعاً معذور کہلائے گا ، لیکن اگر ایسا نہیں ہے یعنی قطروں کے آنے کے درمیان اتنا وقت مل جاتا ہے کہ وضو کر کے نماز پڑھ  لے اور اس دوران قطرے نہ آئیں تو ایسا شخص معذور نہیں کہلائے گا ، جو شخص  معذور ہو اس کے  لیے حکم یہ ہے کہ ہر فرض نماز کے وقت وضو کرلیا کرے اور  اس وضو سے اس ایک وقت میں جتنے چاہے فرائض اور نوافل ادا کر لے، اس کے قطروں کے نکلنے سے اس کے وضو کے ٹوٹنے کا حکم نہیں لگایا جائے گا۔

صورتِ مسئولہ میں اگر کسی شخص کو قطروں کا  ایسا مرض ہے کہ اسے کسی ایک نماز کے مکمل وقت میں اتنا وقت بھی نہ مل سکے کہ وہ پاک اور باوضو ہوکر وقتی فرض نماز ادا کرے تو وہ شرعی معذور ہوچکاہے، اب جب تک کسی نماز کا مکمل وقت قطروں کے عذر کے بغیر نہ گزر جائے وہ شرعی معذور رہے گا، اس کا حکم یہ ہے کہ جب وہ حج یا عمرہ کرنے جائے تو  وہ ہر فرض نماز کے وقت میں ایک مرتبہ وضو کرے ، پھر اس سے  جتنے طواف کرنا چاہے کر لے، جتنی نمازیں چاہے پڑھے ،   پھر  جب دوسری نماز کا وقت داخل ہو جائے تو نیا وضو کر لے۔ 

واضح رہے کہ طواف کے لیے وضو ضروری ہے، طواف کے علاوہ حج و عمرہ کے دیگر افعال کے لیے وضو ضروری نہیں ہے،  اس لیے باقی افعال میں مریض و غیر مریض کا حکم ایک جیسا ہو گا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"شرط ثبوت العذر ابتداءً أن یستوعب استمراره وقت الصلاة کاملاً، وهو الأظهر، کالانقطاع لایثبت مالم یستوعب الوقت کله .... المستحاضة ومن به سلس البول .… یتوضؤن لوقت کل صلاة، ویصلون بذلک الوضوء في الوقت ماشاؤا من الفرائض و النوافل .… ویبطل الوضوء عند خروج وقت المفروضة بالحدث السابق .… إذا کان به جرح سائل وقد شد علیه خرقةً فأصابها الدم أکثر من قدر الدرهم، أو أصاب ثوبه إن کان بحال لوغسله یتنجس ثانیاً قبل الفراغ من الصلاة، جاز أن لا یغسله وصلی قبل أن یغسله وإلا فلا، هذا هو المختار."

(كتاب الطهارة، الباب السادس، الفصل الرابع، ج:1، ص:40، ط:رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(‌وصاحب ‌عذر ‌من ‌به ‌سلس) ‌بول ‌لا ‌يمكنه ‌إمساكه (أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة) بأن لا يجد في جميع وقتها زمنا يتوضأ ويصلي فيه خاليا عن الحدث (ولو حكما) لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم (وهذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت) ولو مرة (وفي) حق الزوال يشترط (استيعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقيقة) لأنه الانقطاع الكامل. ونحوه (لكل فرض) اللام للوقت كما في - {لِدُلُوكِ الشَّمْسِ} [الإسراء: 78]- (ثم يصلي) به (فيه فرضا ونفلا) فدخل الواجب بالأولى (فإذا خرج الوقت بطل) أي: ظهر حدثه السابق، حتى لو توضأ على الانقطاع ودام إلى خروجه لم يبطل بالخروج ما لم يطرأ حدث آخر أو يسيل كمسألة مسح خفه.وأفاد أنه لو توضأ بعد الطلوع ولو لعيد أو ضحى لم يبطل إلا بخروج وقت الظهر. (وإن سال على ثوبه) فوق الدرهم (جاز له أن لا يغسله إن كان لو غسله تنجس قبل الفراغ منها) أي: الصلاة (وإلا) يتنجس قبل فراغه (فلا) يجوز ترك غسله، هو المختار للفتوى. وكذا مريض لا يبسط ثوبه إلا تنجس فورا له تركه(و) المعذور (إنما تبقى طهارته في الوقت) بشرطين (إذا) توضأ لعذره و (لم يطرأ عليه حدث آخر، أما إذا) توضأ لحدث آخر وعذره منقطع ثم سال أو توضأ لعذره ثم (طرأ) عليه حدث آخر، بأن سال أحد منخريه أو جرحيه أو قرحتيه ولو من جدري ثم سال الآخر (فلا) تبقى طهارته."

(كتاب الطهارة، باب الحيض، مطلب في أحكام المعذور، ج:1، ص:305، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144409101709

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں