بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پنشن والی رقم لے پالک بیٹی کے نام کرنے سے مذکورہ رقم کا حکم


سوال

میری والدہ صاحبہ میرے مرحوم والد کی پنشن لے رہی تھیں، اب ان کا انتقال ہو گیا ہے، میری ایک لے پالک کنواری بہن بھی ہے جو کہ میری والدہ نے گود لی ہوئی تھی، میری والدہ اپنی زندگی میں اسے پینشن کے لیے نامزد فرما گئی تھیں، ان کا شناختی کارڈ بنوا کر، اب گورنمنٹ اپنے اصول کے مطابق اس بچی کو پینشن دینا چاہتی ہےکیوں کہ شناختی کارڈ کے مطابق وہ میری والدہ کی بیٹی ہے، کیا میری بہن پنشن لے سکتی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  پینشن کی رقم سرکاری ملازم کی وفات کے بعد یا تو اس کی بیوہ کو ملتی ہے اور بیوہ کی وفات کی صورت میں یہ سہولت چوبیس (24) سال سے کم عمر کے بچوں کو ملتی ہےاور اس کے بعد حکومتِ پاکستان غیر شادی شدہ بیٹے یا بیوہ بیٹی اور اس کے بعد اس کے بچوں کو پینشن دینے کی پابند ہے یعنی پچیس (25) سال کی ملازمت کے بعد ایک اندازے کے مطابق پچھتر سال تک مرحوم کا خاندان سرکار کے اس مشاہرے کا مستحق ٹھہرتا ہے، اور یہ پنشن کی رقم متعلقہ ادارہ کی طرف سے عطیہ اور تبرع ہوتی ہے، جس کو مرحوم کے ترکہ / میراث میں شمار نہیں کیا جاتا۔

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ بچی کا محض شناختی کارڈ وغیرہ میں اپنا نام درج کرکے اپنے آپ کو مرحوم کی بیٹی ظاہر کرنا جائز نہیں ہے، اور نہ وہ ان کی بیٹی یا اولاد میں ہے، لہذا مرحوم کی بیوہ کے انتقال کے بعد حکومتی قوانین کے مطابق چوں کہ پینشن کی رقم مرحوم کی اولاد کو ملتی ہے، اور مذکورہ بچی مرحوم کے نام کے شناختی کارڈ سے شرعی طور پر ان کی اولاد نہیں ہے تو اس بچی کے لیے مرحوم کی اولاد کے مناسبت سے پینشن کی رقم لینا جائز نہیں ہے، تاہم اگر حکومت کو مذکورہ معلومات مکمل طور پر فراہم کرنے کے بعد بھی حکومت ان کے نام سے پینشن کی رقم جاری کرتی ہے، تواس کے لیے پینشن کی رقم لینا جائز ہے۔

ملحوظ رہے مذکورہ لے پالک بیٹی کے لیے اپنے شاختی کارڈ میں اپنے والدین کے علاوہ کسی اور کی طرف مثلاً گود لئے ہوئے شخص کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے، کیوں کہ مختلف احادیثِ مبارکہ میں والد کے علاوہ کی طرف نسبت کرنے سے منع کیا گیا ہے، لہذا شناختی کارڈ میں والد کے خانہ میں اپنے والد کا نام درج کرنا ضروری ہے۔

امداد الفتاوی میں ہے:

"چوں کہ میراث مملوکہ اموال میں جاری ہوتی ہے اور یہ وظیفہ محض تبرع واحسانِ سرکار ہے، بدون قبضہ کے مملوک نہیں ہوتا، لہذا آئندہ جو وظیفہ ملے گا اس میں میراث جاری نہیں ہوگی، سرکار کو اختیار ہے جس طرح چاہیں تقسیم کردے۔"

(کتاب الفرائض، عنوان: عدم جریان میراث در وظیفہ سرکاری تنخواہ،ج:4، ص:343،  ط: دارالعلوم کراچی)

فتاوی شامی میں ہے:

"(يبدأ من تركة الميت الخالية عن تعلق حق الغير بعينها...

(قوله الخالية إلخ) صفة كاشفة لأن تركه الميت من الأموال صافيا عن تعلق حق الغير بعين من الأموال كما في شروح السراجية".

(كتاب الفرائض، ج:6، ص:759، ط:ايج ايم سعيد)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144308101092

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں