بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

پرندے پالنا اور کاروبار کرنا


سوال

کیا ہم پرندہ  گھر پر پال کر اس کا کاروبار کرسکتےہیں؟

جواب

پرندے پالنا اور ان کا کاروبار کرنا کچھ شرائط کے ساتھ  جائز ہے،  حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے بھائی ابوعمیر نے ایک چڑیا پال رکھی تھی۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب تشریف لاتے تو پوچھتے تھے:

"يَا أَبَا عُمَيْرٍ مَا فَعَلَ النُّغَيْرُ، نُغَرٌ کَانَ يَلْعَبُ بِه".

ترجمہ: ’’اے ابو عمیر! نغیر (ایک پرندہ) کا کیا کیا؟ وہ بچہ اس پرندہ سے کھیلتا تھا‘‘۔

(بخاري، الصحيح، 5: 2291، رقم: 5850، دار ابن کثير اليمامة بيروت

مسلم، الصحيح، 3: 1692، رقم: 2150، دار إحياء التراث العربي بيروت)

مذکورہ بالا روایت سے معلوم ہوا کہ حضرت انس کے گھر میں ان کے بھائی نے ایک پرندہ پال رکھا تھا۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بارے میں دریافت فرماتے، مگر آپ ﷺ نے اسے رکھنے سے منع نہیں کیا۔ معلوم ہوا کہ پرندوں کو گھر میں پالنے کی اجازت ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:

"إن في الحديث دلالةً على جواز إمساك الطير في القفص ونحوه، ويجب على من حبس حيواناً من الحيوانات أن يحسن إليه ويطعمه ما يحتاجه لقول النبي صلى الله عليه وسلم".

ترجمہ: اس حدیث سے پرندے کو پنجرے وغیرہ میں بند کرنے کے جواز پر دلیل ملتی ہے۔ پرندے کو رکھنے والے پر واجب ہے کہ وہ اس کے کھانے وغیرہ کا خصوصی اہتمام کرے۔

(عسقلاني، فتح الباري، 10: 584، دار المعرفة بيروت)

 لیکن اس کے ساتھ ضروری شرط یہ ہے کہ ان جانوروں کےحقوق کا خیال رکھا جائے اور ان کی حق تلفی نہ کی جائے، کیوں کہ ان کو خوراک مہیا نہ کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

"دخلت امرأة النار في هرة ربطتها فلم تطعمها ولم تدعها تأكل من خشاش الأرض".

ترجمہ: ایک عورت صرف اس لیے جہنم میں چلی گئی کہ اس نے ایک بلی باندھ رکھی تھی، لیکن اسے نہ تو کھانا کھلایا اور نہ ہی اسے زمین میں کھلا چھوڑ دیا کہ وہ حشرات الارض سے پیٹ بھر لے۔

(بخاری، الصحيح، كتاب بدء الخلق، رقم: 2)

لہٰذا پرندے پالنے اور ان کا کاروبار کرنے کے لیے چند باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے:

1- ان کے دانے اورخوراک کا خیال رکھا جائے۔

2- انہیں ستایا نہ جائے۔

3- بیمار ہونے کی صورت میں علاج معالجہ کیا جائے۔

وفي الفتاوى الهندية :

"ويجوز بيع جميع الحيوانات سوى الخنزير وهو المختار، كذا في جواهر الأخلاطي.(3/ 114ط:دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110201575

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں