بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پانی کی خریدوفروخت کا کام کرنے کا حکم


سوال

کیا پانی کی خریدوفروخت کاکام کرنا حلال ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں کسی برتن، مشکیزے، کین، ڈرم، ٹینک یا ٹینکر میں محفوظ کیے ہوئے پانی کی خریدوفروخت یا کاروبار کرنا شرعاً جائز ہے، کیوں کہ وہ مملوکہ پانی کہلاتا ہے، جس کی خریدوفروخت ازروئے شرع جائز ہے، البتہ جو پانی مذکورہ بالا طریقوں کی مانند محفوظ نہ کیا گیاہو مثلاً کنویں، تالاب، نہر یا دریا وسمندر میں موجود پانی کی خریدوفروخت جائز نہیں ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لا يجوز بيع الماء في بئره ونهره هكذا في الحاوي وحيلته أن يؤاجر الدلو والرشاء هكذا في محيط السرخسي فإذا أخذه وجعله في جرة أو ما أشبهها من الأوعية فقد أحرزه فصار أحق به فيجوز بيعه والتصرف فيه كالصيد الذي يأخذه كذا في الذخيرة وكذلك ماء المطر يملك بالحيازة كذا في محيط السرخسي.وأما بيع ماء جمعه الإنسان في حوضه ذكر شيخ الإسلام المعروف بخواهر زاده في شرح كتاب الشرب أن الحوض إذا كان مجصصا أو كان الحوض من نحاس أو صفر جاز البيع على كل حال وكأنه جعل صاحب الحوض محرز الماء بجعله في حوضه."

(كتاب البيوع، الباب التاسع، الفصل في بيع الماء والجمد، ج:3، ص:121، ط:دارالفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"وقال الرملي: إن صاحب البئر لا يملك الماء كما قدمه في البحر في كتاب الطهارة في شرح قوله: وانتفاخ حيوان عن الولوالجية فراجعه، وهذا ما دام في البئر، أما إذا أخرجه منها بالاحتيال كما في السواني فلا شك في ملكه له لحيازته له في الكيزان ثم ‌صبه ‌في ‌البرك بعد حيازته. تأمل، ثم حرر الفرق بين ما في البئر وما في الجباب والصهاريج الموضوعة في البيوت لجمع ماء الشتاء بأنها أعدت لإحراز الماء فيملك ما فيها."

(كتاب البيوع، ج:5، ص:67، ط: سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144406100783

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں