بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پانچ تولہ سونا اور پلاٹ ملکیت میں ہونے کی صورت میں قربانی کا وجوب


سوال

ایک عورت کے پاس تقریبا پانچ تولہ سونا ہے ,چاندی باکل نہیں ہےاور ایک پلاٹ ہے جو گھر کی تعمیر کی نیت سے خریدا تھاتو ایسی صورت میں کیا اس پر قربانی واجب ہے؟ جبکہ اسکے علاوہ نقدی نہیں ہے اور کپڑوں کے 20 جوڑے ہیں جو سب استعمال کے ہیں۔

جواب

قربانی واجب ہونے کا نصاب وہی ہے جو صدقۂ فطر کے واجب ہونے کا نصاب ہے، یعنی جس عاقل، بالغ ، مقیم ، مسلمان  مرد یا عورت کی ملکیت میں قربانی کے ایام میں ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی، یا اس کی قیمت کے برابر رقم ہو،  یا تجارت کا سامان، یا ضرورت سےزائد اتنا سامان موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو، یا ان میں سے کوئی ایک چیز یا ان پانچ چیزوں میں سے بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر  ہوتو ایسے مرد وعورت پر قربانی واجب ہے۔

نیز  یہ ملحوظ رہے کہ قربانی اور زکاۃ کے واجب ہونے  کے نصاب میں فرق یہ ہے  کہ زکاۃ صرف اس مال پر فرض ہوتی ہے جو عادۃً بڑھتا ہے، جیسے مالِ تجارت، یا مویشی، یا سونا چاندی اور نقدی۔ اس کے علاوہ ذاتی مکان، دکان، برتن، فرنیچر، اور دوسرے گھریلو سامان، ملوں، کارخانوں کی مشینری ، جواہرات خواہ کتنے ہی قیمتی ہوں اگر تجارت کے لیے نہ ہوں تو ان پر زکاۃفرض نہیں ہے۔

جب کہ قربانی اور صدقہ فطر، اور زکاۃ وصولی کے لیے غیر مستحق ہونے کے  نصاب میں ان چیزوں کے ساتھ ضرورت سے زائد سامان کو بھی ملایا جاتا ہے، مثلاً کسی کے پاس دو مکان ہیں، ایک رہائش کے لیے اور ایک ایسے ہی بند پڑا ہوا ہے، اور ضرورت سے زائد ہے تو قربانی وغیرہ کے نصاب میں اس کو  بھی شامل کیا جائے گا، اسی طرح ضرورت سے زائد سامان کا بھی یہی حکم ہوگا۔

لہذا صورت مسئولہ میں  قربانی کے ایام میں اگر مذکورہ عورت کے پاس پانچ تولہ سونا اور رہائشی مکان کے علاوہ پلاٹ موجود ہے تو اس پر قربانی واجب ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 312):
"واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر) كما مر (لا الذكورة فتجب على الأنثى)، خانية.

(قوله: واليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضاً يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية ولو له عقار يستغله فقيل: تلزم لو قيمته نصاباً،..."الخ

الفتاوى الهندية (1/ 191):
"وهي واجبة على الحر المسلم المالك لمقدار النصاب فاضلاً عن حوائجه الأصلية، كذا في الاختيار شرح المختار، ولايعتبر فيه وصف النماء، ويتعلق بهذا النصاب وجوب الأضحية، ووجوب نفقة الأقارب، هكذا في فتاوى قاضي خان"
. فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111201445

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں