بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پاکستان سے باہر ملازمت کرنے والا اپنے نابالغ بچوں کا صدقہ فطر کس حساب سے ادا کرے گا؟


سوال

 جو گھر کا سربراہ پاکستان سے باہر ملک میں کام کرتا ہو  تو وہ نابالغ بچوں کا صدقہ فطر پاکستان کے حساب سے دے گا؟  اگر بچے اس کے پاکستان میں رہ رہے ہوں  اور خود اکیلا باہر رہتا ہو؟

جواب

صدقۂ  فطر  کی  مقدار  گندم کے حساب سے  پونے دو کلو گندم ہے اور کھجور، جو  اور کشمش  کے  حساب  سے  ساڑھے تین کلو  کھجور، جَو  اور کشمش  ہے، چاہےکہیں بھی ادا کیا جائے، اور اگر قیمت ادا کرنی ہے تو جہاں ادائیگی کرنے والا موجود ہے  وہاں کا اعتبار ہوگا۔

 لہذا  اگر گھر کا سربراہ بیرون ملک میں  مقیم ہے  اور عید الفطر بھی وہیں کرے گا  تو  اس  پر اپنا اور اپنے نابالغ بچوں کا صدقہ فطر  اسی ملک کے  نرخ  کے  حساب سے دینا لازم ہوا تھا،  لہذا مذکورہ شخص پر  اپنے نابالغ بچوں کا صدقہ فطر بھی وہیں کی قیمت کے حساب ادا کرنا ہوگا  خواہ یہ قیمت اسی ملک میں دی جائے  یا اس  کی اجازت سے پاکستان میں ادا کی جائے۔

باقی بیوی  بالغ بچے جو کہ پاکستان میں ہیں، ان پر ان کا اپنا صدقہ فطر  پاکستان کے نرخ کے مطابق لازم ہوا تھا، لہذا وہ خود پاکستان میں پاکستان کی قیمت کے حساب سے دے سکتے ہیں،  اور اگر مذکورہ شخص   ان کی طرف سے ادا کرنا چاہتا  ہے  تو ایسی قیمت لگانا بہتر ہے جس میں فقراء کا زیادہ فائدہ ہو۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 355):

"والمعتبر في الزكاة فقراء مكان المال، وفي الوصية مكان الموصي، وفي الفطرة مكان المؤدي عند محمد، وهو الأصح، وأن رءوسهم تبع لرأسه.
(قوله: مكان المؤدي) أي لا مكان الرأس الذي يؤدي عنه (قوله: وهو الأصح) بل صرح في النهاية والعناية بأنه ظاهر الرواية، كما في الشرنبلالية، وهو المذهب كما في البحر؛ فكان أولى مما في الفتح من تصحيح قولهما باعتبار مكان المؤدى عنه
".

الفتاوى الهندية (1/ 190)

"ثم المعتبر في الزكاة مكان المال حتى لو كان هو في بلد، وماله في بلد آخر يفرق في موضع المال، وفي صدقة الفطر يعتبر مكانه لا مكان أولاده الصغار وعبيده في الصحيح، كذا في التبيين. وعليه الفتوى، كذا في المضمرات". 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109203348

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں