بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

پانچ ماہ کا حمل ضائع کرنے کا حکم


سوال

 میری دو بچیاں جینٹک ڈس آرڈر کی وجہ سے مائیکرو سفیلی سے ذہنی اعتبار سے معذور ہیں، سر کا سائز بھی بہت چھوٹا ہے، اب تیسرا حمل ہے، برابر الٹرا ساؤنڈ ہوتے رہے، سب ٹھیک تھا، لیکن پانچ ماہ ہونے کے بعد الٹرا ساؤنڈ میں پھر وہی بیماری ظاہر ہو رہی ہے، اب ہماری طاقت جواب دے چکی ہے، ان دو بچیوں کو سنبھالنا قابو سے باہر ہے، ایسے میں تیسرا بچہ بھی اگر ویسا ہی ہوا تو ہم لوگ پاگل ہو جائیں گے، کیا ایسی صورت میں حمل ضائع کروایا جا سکتا ہے؟

جواب

حمل کو چار ماہ یعنی 120 دن گزرنے کے بعد چوں کہ اللہ رب العزت اس میں روح ڈال دیتا ہے؛ جس کی وجہ سے ایسے حمل کا اسقاط حرام ہے، اور یہ ایسے ہی ہے جیسے زندہ بچے کو درگور کردیا جائے۔

نیز الٹرا ساؤنڈ میں بچے کی کسی بیماری کا علم یقینی نہیں، بلکہ گمان کے درجے میں ہوتا ہے، اور اگر یقینی بھی ہو تو خالقِ کائنات بقیہ مدت میں اس مرض سے نجات دینے پر قدرت رکھتا ہے اور بالفرض آخر وقت تک بھی بچہ مذکورہ مرض میں مبتلا رہے، پھر بھی اس کا اسقاط جائز نہیں؛ کیوں کہ بیمار انسان کو مارنا جائز نہیں، اگر اب اسقاط کیا گیا تو یہ قتلِ جنین ہے، جس کی وجہ سے ماں باپ پر عُقل (بطورِ تاوان پانچ سو درہم) لازم ہوگا۔ لہذا آپ اللہ رب العزت سےصحت یابی کی دعا کریں اور اس سے اچھی امید رکھیں۔

نیز جب تک جینٹک مسائل کا شکار ہیں، اس وقت تک عارضی طور پر حمل سے بچنے کے اسباب اختیار کر سکتے ہیں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

وَكَذَلِكَ الْمَرْأَةُ يَسَعُهَا أَنْ تُعَالَجَ لِإِسْقَاطِ الْحَبَلِ مَا لَمْ يَسْتَبِنْ شَيْءٌ مِنْ خَلْقِهِ وَذَلِكَ مَا لَمْ يَتِمَّ لَهُ مِائَةٌ وَعِشْرُونَ يَوْمًا ثُمَّ إذَا عَزَلَ وَظَهَرَ بِهَا حَبَلٌ هَلْ يَجُوزُ نَفْيُهُ؟ قَالُوا إنْ لَمْ يَعُدْ إلَى وَطْئِهَا أَوْ عَادَ بَعْدَ الْبَوْلِ وَلَمْ يُنْزِلْ جَازَ لَهُ نَفْيُهُ وَإِلَّا فَلَا كَذَا فِي التَّبْيِينِ.

(كتاب النكاح، الْبَابُ التَّاسِعُ فِي نِكَاحِ الرَّقِيقِ، ١ / ٣٣٥، ط: دار الفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

وَإِنْ أَسْقَطَتْ بَعْدَ مَا اسْتَبَانَ خَلْقُهُ وَجَبَتْ الْغُرَّةُ كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ.

 الْعِلَاجُ لِإِسْقَاطِ الْوَلَدِ إذَا اسْتَبَانَ خَلْقُهُ كَالشَّعْرِ وَالظُّفْرِ وَنَحْوِهِمَا لَا يَجُوزُ وَإِنْ كَانَ غَيْرَ مُسْتَبِينِ الْخَلْقِ يَجُوزُ وَأَمَّا فِي زَمَانِنَا يَجُوزُ عَلَى كُلِّ حَالٍ وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى كَذَا فِي جَوَاهِرِ الْأَخْلَاطِيِّ.

وَفِي الْيَتِيمَةِ سَأَلْت عَلِيَّ بْنَ أَحْمَدَ عَنْ إسْقَاطِ الْوَلَدِ قَبْلَ أَنْ يُصَوَّرَ فَقَالَ أَمَّا فِي الْحُرَّةِ فَلَا يَجُوزُ قَوْلًا وَاحِدًا وَأَمَّا فِي الْأَمَةِ فَقَدْ اخْتَلَفُوا فِيهِ وَالصَّحِيحُ هُوَ الْمَنْعُ كَذَا فِي التَّتَارْخَانِيَّة.

(كتاب الكراهية، الْبَابُ الثَّامِنَ عَشَرَ فِي التَّدَاوِي وَالْمُعَالَجَاتِ وَفِيهِ الْعَزْلُ وَإِسْقَاطُ الْوَلَدِ، ٥ / ٣٥٦، ط: دار الفكر)

الموسوعة الفقهية الكوتية میں ہے:

وذهب الحنفیة إلی إباحة إسقاط العلقة حیث أنهم یقولون بإباحة إسقاط الحمل ما لم یتخلق منه شيء ولم یتم التخلق إلا بعد مائة وعشرین یوماً، قال ابن عابدین: وإطلاقهم یفید عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذکورة علی إذن الزوج، وکان الفقیه علي بن موسی الحنفي یقول: إنه یکره فإن الماء بعد ما وقع في الرحم مآله الحیاة، فیکون له حکم الحیاة کما في بیضة صید الحرم، قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة علی حالة العذر أو أنها لا تأثم إثم القتل.

(الموسوعة الفقهیة الکویتیة۳۰/ ۲۸۵)

  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201200290

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں