بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اوور ٹائم کی اجرت لینے کا حکم


سوال

اوور ٹائم کی اجرت لینا شرعًا کیسا ہے؟

جواب

کسی بھی ادارے کے  ملازمین کی حیثیت اجیرِ خاص کی ہوتی ہے،  کیوں کہ وہ وقت کے پابند ہوتے ہیں، اور  اجیرِ  خاص  ملازمت کے مقررہ وقت پر حاضر رہنے سے اجرت (تنخواہ)  کا مستحق ہوتا ہے،  اور چوں کہ ملازمین کی ملازمت کا ایک خاص وقت متعین ہے، اور اسی وقت کا انہیں معاوضہ دیا جاتا ہے، اس متعین وقت کے بعد ملازم کا بلامعاوضہ اضافی کام کرنا ملازم کی طرف سے ایک احسان ہے، جس پر ملازم کو شرعی اعتبار سے مجبور کرنا جائز نہیں ہے۔ ذمہ داران کو چاہیے کہ یا تو اضافی وقت کا معاوضہ متعین کریں، یا پھر ملازمین کو بلا جبر کام کرنے کا اختیار دیں۔ 

صورتِ مسئولہ میں   ملازمت کے اوقات کے علاوہ اضافی کام (اور ٹائم ) چوں کہ  ملازمت کی مفوضہ ذمہ داریوں میں شامل نہیں ہیں، بلکہ ملازمت کے  طے شدہ اوقات سے زیادہ ہے  اس لیے  ملازمین  مالکان سے کام کرنے  سے پہلے باقاعدہ اجرت طے کرکے ان سےطے شدہ اجرت لے سکتے ہیں، اسی طرح مالکان خود اضافی وقت کی اجرت طے کرکے ملازم کو اس اضافی اجرت کے عوض اضافی وقت دینے کی ترغیب دے سکتے ہیں، البتہ مجبور نہیں کرسکتے۔ بہرحال پہلے سے اجرت طے کیے بغیر یا غلط بیانی کرکے معاملہ کرنا درست نہیں ہے۔

    فتاوی شامی میں ہے:

"وليس للخاص أن يعمل لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل، فتاوى النوازل.

(قوله: وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلاً يوماً يعمل كذا، فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة، وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا: له أن يؤدي السنة أيضاً. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلاً، وعليه الفتوى ... (قوله: ولو عمل نقص من أجرته إلخ) قال في التتارخانية: نجار استؤجر إلى الليل فعمل لآخر دواة بدرهم وهو يعلم فهو آثم، وإن لم يعلم فلا شيء عليه، وينقص من أجر النجار بقدر ما عمل في الدواة".

(6/70،  کتاب الاجارۃ، ط؛ سعید)

شرح المجلۃ میں ہے:

 "لایجوز لأحد  أن یاخذ  مال أحد  بلا سبب شرعي".

(1/264،  مادۃ: 97، ط؛ رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144202200170

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں