بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورتوں کا عید کی نماز کے لیے عید گاہ جانا


سوال

عورتوں کی باجماعت  نماز ، جمعہ اور عیدین کے متعلق جامعہ کا فتوی بالکل واضح ہے لیکن ایک خاص طبقہ کا کہنا ہے کہ عورتوں کی جمعہ اور بالخصوص عیدین کی نماز بچوں کے ساتھ پڑھنا بخاری شریف کی روایت سے ثابت ہے یہاں عرب میں خاص طور پر ہمارے لوگ اس کا اہتمام کرتے ہیں حوالہ کے لیے ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے ثابت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ ہمیں حکم تھا کہ حائضہ عوتوں کنواری لڑکیوں اور پردہ نشین عورتوں کہ بھی عیدگاہ لے جائیں البتہ حائضہ عورتیں  مسلمانوں کے اجتماع اور دعاؤں میں شریک ہوں اور نماز کی جگہ سے الگ رہیں اسی طرح ایک صحابیہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اگر کسی کے پاس چادر نہ ہو اس وجہ سے وہ عیدگاہ نہ جاسکے تو کیا حرج ہے آپ نے فرمایا اس کی سہیلی اپنی چادر کا ایک حصہ اسے اوڑھا دے اور وہ خیر اور مسلمانوں کی دعا میں ضرور شریک ہو ۔رہنمائی فرمائیں

جواب

واضح رہےکہ عورتوں کے لیے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں آنا مکروہِ تحریمی ہے، خواہ فرض نماز ہو یا جمعہ و  عید ین کی نماز ہو یا تراویح کی جماعت ہو، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عورتیں مسجد میں نماز کے لیے آتی تھیں، وہ بہترین زمانہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  بنفسِ نفیس موجود تھے، اور وحی کا نزول ہوتا تھا، اسلامی احکام نازل ہورہے تھے اور عورتوں کے لیے بھی علمِ دین اور شریعت کے احکامات سیکھنا ضروری تھا، مزید یہ کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں نماز پڑھنے کا ثواب بھی عام مساجد سے کئی گنا زیادہ تھا ،لیکن اس وقت بھی انہیں یہی حکم تھا کہ عمدہ لباس اور زیورات پہن کر نہ آئیں اورخوش بو لگا کر نہ آئیں، نماز ختم ہونے کے فوراً بعد مردوں سے پہلے واپس چلی جائیں، اور ان پابندیوں کے ساتھ اجازت کے بعد بھی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب یہی دی کہ عورتوں کا گھر میں نماز ادا کرنا مسجد میں نماز ادا کرنے سے افضل ہے، اور گھر کے کمرے میں نماز ادا کرنا برآمدے میں نماز ادا کرنے سے افضل ہے، اور گھر کی کوٹھری میں نماز ادا کرنا کمرے میں نماز ادا کرنے سے افضل ہے۔

حضرت امّ حمید رضی اللہ عنہا نے بارگاہِ نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم  میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ مجھے آپ کے ساتھ نماز پڑھنے کا شوق ہے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:تمہارا شوق (اور دینی جذبہ) بہت اچھا ہے، مگر تمہاری نماز اندرونی کوٹھری میں کمرے کی نماز سے بہتر ہے، اور کمرے کی نماز گھر کے احاطے کی نماز سے بہتر ہے، اور گھر کے احاطے کی نماز محلے کی مسجد سے بہتر ہے، اور محلے کی مسجد کی نماز میری مسجد (مسجدِ نبوی) کی نماز سے بہتر ہے۔

چناں چہ حضرت امّ حمید ساعدی رضی اللہ عنہا نے فرمائش کرکے اپنے کوٹھری  کے آخری کونے میں جہاں سب سے زیادہ اندھیرا رہتا تھا مسجد (نماز پڑھنے کی جگہ) بنوائی، وہیں نماز پڑھا کرتی تھیں، یہاں تک کہ ان کا وصال ہوگیا اور اپنے خدا کے حضور حاضر ہوئیں"۔

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پردہ فرمانے کے بعد جب حالات بدل گئے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے اپنے زمانہ میں یہ دیکھا کہ عورتیں اب ان پابندیوں کا خیال نہیں کرتیں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی موجودگی میں عورتوں کو مسجد آنے سے منع کر دیا گیا، اور اس پر گویا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا اتفاق ہوگیا۔

اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ عورتوں کی جو حالت آج ہو گئی ہے وہ حالت اگر حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوئی ہوتی تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو مسجد آنے سے منع فرما دیتے۔

یہ اس زمانہ کی بات ہے کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کو زیادہ عرصہ بھی نہیں گزرا تھا، ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاج خوب سمجھتی تھیں،اسی لیے فرمایا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتوں کی ایسی حالت ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو آنے سے منع فرمادیتے۔ اس لیے موجودہ پر فتن دور جس میں فتنہ ، فساد ، اور بے حیائی عام ہے، اور مرد وزن میں دین بے زاری کا عنصر غالب ہے، عورتوں میں فیشن، اور بن سنور کر باہر نکلنے کا رواج ہے، آج کے دور میں اگر حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ موجود ہوتے یا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا موجود ہوتیں تو موجودہ زمانہ میں عورتوں کے متعلق کیا رائے قائم کی جاتی؟! علماءِ احناف ان روایات اور دیگر نصوص کی بنا پر عورتوں کو مسجد یا عیدگاہ آنے سے منع کرتے ہیں عورتوں کو مسجد میں آکر باجماعت نماز پڑھنے کی ہرگز اجازت نہیں ہے، خواہ پردے کے ساتھ ہی کیوں نہ آئیں، پس عورتیں اپنے گھروں میں نماز اداکریں، یہی ان کے لیے زیادہ اجر وثواب کا باعث ہےنیز عورتوں پر عید کی نماز بھی واجب نہیں۔

سنن أبي داؤدمیں ہے:

"عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم - قال: "صلاة المرأة في بيتها أفضل من صلاتها في حجرتها، وصلاتها في مخدعها أفضل من صلاتها في بيتها."

(كتاب الصلاة , باب التشديد في ذلك جلد 1 ص: 426 ط: دارالرسالة العالمیة)

الترہیب و الترغیب میں ہے:

"عن أم حميد امرأة أبي حميد الساعدي رضي الله عنهما أنها جاءت إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقالت :يا رسول الله !إني أحب الصلاة معك، قال: قد علمت أنك تحبين الصلاة معي وصلاتك في بيتك خير من صلاتك في حجرتك وصلاتك في حجرتك خير من صلاتك في دارك وصلاتك في دارك خير من صلاتك في مسجد قومك وصلاتك في مسجد قومك خير من صلاتك في مسجدي،قال: فأمرت فبني لها مسجد في أقصى شيء من بيتها وأظلمه وكانت تصلي فيه حتى لقيت الله عز وجل(رواه أحمد وابن خزيمة وابن حبان في صحيحيهما)."

( كتاب الصلاة جلد 1 ص: 140 ط: دارالكتب العلمية)

عمدۃ القاری میں ہے:

"(فإن قلت) من أين علمت عائشة رضي الله تعالى عنها هذه الملازمة والحكم بالمنع وعدمه ليس إلا الله تعالى (قلت) مما شاهدت من القواعد الدينية المقتضية لحسم مواد الفساد والأولى في هذا الباب أن ينظر إلى ما يخشى منه الفساد فيجتنب لإشارته - صلى الله عليه وسلم - إلى ذلك بمنع الطيب والتزين لما روى مسلم من حديث زينب امرأة ابن مسعود " إذا شهدت إحداكن المسجد فلا تمس طيبا " وروى أبو داود من حديث أبي هريرة رضي الله تعالى عنه قال " لا تمنعوا إماء الله مساجد الله ولكن ليخرجن وهن تفلات " وكذلك قيد ذلك في بعض المواضع بالليل ليتحقق الأمن فيه من الفتنة والفساد."

(کتاب مواقیت الصلوۃ , باب خروج النساء الی المساجد باللیل و الغلس جلد 6 ص: 159 ط: داراحیاء التراث العربي)

العنایة شرح الهدايةمیں ہے:

"وقوله: (ويكره لهن حضور الجماعات) كانت النساء يباح لهن الخروج إلى الصلوات، ثم لما صار سببا للوقوع في الفتنة منعن عن ذلك، جاء في التفسير أن قوله تعالى{ولقد علمنا المستقدمين منكم ولقد علمنا المستأخرين}[الحجر: 24] نزلت في شأن النسوة حيث كان المنافقون يتأخرون للاطلاع على عوراتهن، ‌ولقد ‌نهى ‌عمر النساء عن الخروج إلى المساجد فشكون إلى عائشة - رضي الله عنها - فقالت: ‌لو ‌علم ‌النبي - صلى الله عليه وسلم - ما علم عمر - رضي الله عنه - ما أذن لكن في الخروج، فاحتج به علماؤنا ومنعوا الشواب عن الخروج مطلقا."

(كتاب الصلاة , باب الإمامة جلد 1 ص: 365 ط: دارالفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(‌ويكره ‌حضورهن ‌الجماعة) ولو لجمعة وعيد ووعظ (مطلقا) ولو عجوزا ليلا (على المذهب) المفتى به لفساد الزمان، واستثنى الكمال بحثا العجائز والمتفانية.

(قوله على المذهب المفتى به) أي مذهب المتأخرين. قال في البحر: وقد يقال هذه الفتوى التي اعتمدها المتأخرون مخالفة لمذهب الإمام وصاحبيه، فإنهم نقلوا أن الشابة تمنع مطلقا اتفاقا. وأما العجوز فلها حضور الجماعة عند الإمام إلا في الظهر والعصر والجمعة أي وعندهما مطلقا، فالإفتاء بمنع العجائز في الكل مخالف للكل، فالاعتماد على مذهب الإمام.

قال في النهر: وفيه نظر، بل هو مأخوذ من قول الإمام وذلك أنه إنما منعها لقيام الحامل وهو فرط الشهوة بناء على أن الفسقة لا ينتشرون في المغرب لأنهم بالطعام مشغولون وفي الفجر والعشاء نائمون؛ فإذا فرض انتشارهم في هذه الأوقات لغلبة فسقهم كما في زماننا بل تحريهم إياها كان المنع فيها أظهر من الظهر. اهـ. قلت: ولا يخفى ما فيه من التورية اللطيفة. وقال الشيخ إسماعيل: وهو كلام حسن إلى الغاية (قوله واستثنى الكمال إلخ) أي مما أفتى به المتأخرون لعدم العلة السابقة فيبقى الحكم فيه على قول الإمام فافهم."

(كتاب الصلاة , باب الإمامة جلد 1 ص: 566 ط: دارالفکر)

آپ کےمسائل اوران کاحل میں ہے:

سوال:"عورتیں مسجد میں جمعہ کی نماز امام صاحب کےساتھ باجماعت اداکرسکتی ہیں یانہیں؟

جواب: عورتوں کا مساجد میں نماز باجماعت کےلیےجانا فسادِ زمانہ اورخوفِ فتنہ کی وجہ سےمکروہ ہے"۔

(جمعہ کی نمازجلد ۴  ص: ۱۵۰ط: مکتبہ لدھیانوی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410100675

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں