بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نوکری کے لیے استخارہ کرنا


سوال

میں اپنی دوکان پر کام کرتا تھا، لیکن اب  میں نوکری کرنا چاہتا ہوں؛ کیوں کہ میرے اخراجات پورے نہیں ہو رہے، آپ استخارہ لے  کر بتائیں  کہ میرے حق میں یہ بہتر ہے یا نہیں، اور میں نوکری کے بعد اسی کا کام کروں گا یعنی چشمے کا۔

جواب

دار الافتاء بنوری ٹاؤن  شرعی مسائل کے حل کے لیے مختص ہے، یہاں "استخارہ" نہیں کیاجاتا۔ نیزاحادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتاہے  کہ جس شخص کی حاجت ہو وہ خود استخارہ کرے،  نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو استخارہ کا طریقہ اس اہتمام سے تعلیم فرماتے تھے جیسے قرآن کریم کی سورت یا آیت۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے واسطے آنے والی پوری امت کی تربیت اس نہج پر فرمائی کہ ہر فردِ امت اللہ تعالیٰ سے خود تعلق قائم کرے، اور مہربان رب سے ہر شخص اپنی حاجت مانگنے کے ساتھ خود ہی خیر کا طلب گار ہو۔   بہرحال ذیل میں آپ کی سہولت کے لیے استخارے کا طریقہ درج کیاجاتاہے،اس کے مطابق آپ خود اپنی حاجت کے لیے استخارہ کرسکتے ہیں۔

استخارہ کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ دن رات میں کسی بھی وقت (بشرطیکہ وہ نفل کی ادائیگی کا مکروہ وقت نہ ہو) دو رکعت نفل استخارہ کی نیت سے پڑھیں،نیت یہ ہو کہ میرے سامنے یہ معاملہ یا مسئلہ ہے ، اس میں جو راستہ میرے حق میں بہتر ہو ، اللہ تعالی اس کا فیصلہ فرمادیں ۔ سلام پھیر کر نماز کے بعد استخارہ کی مسنون دعا مانگیں جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تلقین فرمائی ہے، اور اس دعا میں" ان هذا الامر "پر نیت کرے کہ یا اللہ میں اپنی دکان پر کام کرنا نہیں چاہتا بلکہ ملازمت کرنا چاہتا ہوں اس میں خیر ہے یا نہیں صاف بتا دے اور " ان هذا الامر "دو جگہوں پر ہے دونوں جگہوں پر یہ نیت کرے،  پھر استخارے کے بعد  جس طرف دل مائل ہو وہ کام کرے۔

اگر ایک دفعہ میں قلبی اطمینان حاصل نہ ہو تو سات دن تک  استخارہ کرے، ان شاء اللہ خیر ہوگی۔استخارے  کے لیے کوئی وقت خاص نہیں، البتہ بہتر یہ ہے کہ رات میں سونے سے پہلے جب یکسوئی کا ماحول ہو تو استخارہ کرکے سوجائے، لیکن خواب آنا ضروری نہیں ہے، بلکہ اصل بات قلبی رجحان اور اطمینان ہے۔ 

استخارے کی مسنون دعا یہاں ملاحظہ فرمائیں

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله ومنها ركعتا الاستخارة) عن «جابر بن عبد الله قال: كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يعلمنا الاستخارة في الأمور كلها كما يعلمنا السورة من القرآن يقول إذا هم أحدكم بالأمر فليركع ركعتين من غير الفريضة، ثم ليقل: اللهم إني أستخيرك بعلمك، وأستقدرك بقدرتك، وأسألك من فضلك العظيم، فإنك تقدر ولا أقدر، وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب. اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أو قال عاجل أمري وآجله، فاقدره لي ويسره لي ثم بارك لي فيه، وإن كنت تعلم أن هذا الأمر شر لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أو قال عاجل أمري وآجله فاصرفه عني واصرفني عنه، واقدر لي الخير حيث كان ثم ارضني به، قال ويسمي حاجته» رواه الجماعة إلا مسلما شرح المنية ... وينبغي أن يكررها سبعا، لما روى ابن السني «يا أنس إذا هممت بأمر فاستخر ربك فيه سبع مرات، ثم انظر إلى الذي سبق إلى قلبك فإن الخير فيه» ولو تعذرت عليه الصلاة استخار بالدعاء اهـ ملخصا. وفي شرح الشرعة: المسموع من المشايخ أنه ينبغي أن ينام على طهارة مستقبل القبلة بعد قراءة الدعاء المذكور."

(کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، ٢/ ٢٦، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144412101118

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں