بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نقلی پلکیں لگانا


سوال

نقلی پلکیں لگانا جائز ہے یا نہیں ؟

جواب

حدیثِ مبارک میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: "اللہ تعالی نے اس عورت پرلعنت فرمائی   جو اپنے بالوں میں کسی دوسرے کے بالوں کا جوڑ لگائے اور اس عورت پر جوکسی دوسری عورت کے بالوں میں اپنے بالوں کا جوڑ لگائے اور جسم گودنے اور گدوانے والی پر (بھی لعنت فرمائی )۔

حدیث شریف کے الفاظ یہ ہیں:

"عن ابن عمر  أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لعن اللہ الواصلة و المستوصلة و الواشمة و المستوشمة. متفق علیه". (مشکاة:٣٨١ )

اس سے مراد  انسانی بال ہیں،لہٰذا کسی بھی عورت کے لیے کسی دوسرے کے بالوں کو اپنے بالوں کے ساتھ لگانا ،اسی طرح انسانی بالوں کی بنی ہوئی پلکیں لگانا  جائز نہیں ہے۔ اگر مصنوعی بال یا (خنزیر کے علاوہ) کسی جانور  وغیرہ کے بال ہوں تو شوہر کی خاطر یا زیب وزینت کے لیے اس کا استعمال  جائز ہے، بشرطیکہ دھوکا یا فیشن مقصد نہ ہو۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں شوہر کی خاطر  تزیین و  آرائش کے لیے انسانی بالوں کے علاوہ کسی اور چیز سے بنی مصنوعی  پلکیں  لگانے کی گنجائش ہے، البتہ وضو کے لیے پلکیں اور ناخن نکال کر وضو کرنا ضروری ہوگا، باقی محض دکھلاوے کی خاطر یا فیشن کے لیے مصنوعی پلکیں لگانا جائز نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 372):

"ووصل الشعر بشعر الآدمي  حرام سواء كان شعرها أو شعر غيرها؛ لقوله صلى الله عليه وسلم : «لعن الله الواصلة والمستوصلة والواشمة والمستوشمة والواشرة والمستوشرة والنامصة والمتنمصة». النامصة: التي تنتف الشعر من الوجه. والمتنمصة: التي يفعل بها ذلك.
(قوله: سواء كان شعرها أو شعر غيرها)؛ لما فيه من التزوير كما يظهر مما يأتي، وفي شعر غيرها انتفاع بجزء الآدمي أيضاً، لكن في التتارخانية: وإذا وصلت المرأة شعر غيرها بشعرها فهو مكروه، وإنما الرخصة في غير شعر بني آدم تتخذه المرأة لتزيد في قرونها، وهو مروي عن أبي يوسف، وفي الخانية: ولا بأس للمرأة أن تجعل في قرونها وذوائبها شيئاً من الوبر (قوله: «لعن الله الواصلة» إلخ) الواصلة: التي تصل الشعر بشعر الغير والتي يوصل شعرها بشعر آخر زوراً."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205200675

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں