1- ناپاک کپڑا پہن کر وضو کرکے قرآن چھونا اور پڑھنا کیسا ہے؟
2- نماز میں امام کو سجدے کی حالت میں حدث لاحق ہو جائے تو کیسے نائب بنائے؟
1- ناپاک کپڑا پہنے ہوئے ہونے کی حالت میں وضو کرنے سے وضو درست ہو جاتا ہے اور اس حالت میں قرآن مجید کی تلاوت بھی کی جا سکتی ہے، لیکن قرآنِ مجید کے اَدب کا تقاضا یہ ہے کہ ناپاک لباس میں قرآنِ مجید کی تلاوت نہ کی جائے، بلکہ پاک لباس پہن کر وقار کے ساتھ بیٹھ کر قرآن کی تلاوت کی جائے۔
2- اگر نماز کے دوران امام صاحب کا وضو ٹوٹ جائے تو وہ وضو کے لیے جانے سے پہلے کسی بھی مقتدی کو اپنی جگہ امام بناکر جاسکتے ہیں؛ تاکہ وہ مقتدی امام بن کر لوگوں کی نماز پوری کروادے، استخلاف (نائب بنانے) کا طریقہ یہ ہے کہ جیسے ہی امام صاحب کا وضو ٹوٹ جائے اسی وقت اپنے پیچھے موجود کسی مقتدی کو (جس کے بارے میں گمان ہو کہ اسے نماز کے فرائض، واجبات اور سنتوں کا علم دوسروں سے زیادہ ہوگا) بات کیے بغیر اشارہ کر کے یا کھینچ کر آگے اپنی جگہ پر کھڑا کردے اور خود وضو کرنے چلا جائے، اور وہ نائب اسی جگہ سے نماز کو آگے بڑھائے جہاں سے امام صاحب چھوڑ کر گئے تھے، اگر امام صاحب کا وضو سجدےکے دوران ٹوٹا ہو تو امام صاحب سجدہ سے اٹھ کر نائب کو آگے کریں، اس صورت میں نائب کو وہ سجدہ- جس میں امام صاحب کو حدث لاحق ہوا ہے- کرناہو گا، لیکن امام صاحب بات کیے بغیر اشارہ سے نائب کو بتائیں گے کہ رکوع یا سجدہ باقی ہے، مثلاً رکوع کے لیے اپنے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اشارہ کرنا چاہیے اور سجدہ کے لیے اپنے ماتھے (پیشانی) پر ہاتھ رکھ کر اشارہ کرنا چاہیے، اسی طرح اگر قرأت کی فرض یا واجب مقدار پوری نہ ہوئی ہو تو اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر اشارہ کرنا چاہیے، سجدہ تلاوت کے لیے منہ اور پیشانی پر ہاتھ رکھ کر اشارہ کرے، سجدہ سہو کے لیے اپنے سینہ پر ہاتھ رکھ کر اشارہ کرے، یہ اشارے ضرورت کے تحت ہی کرنا چاہییں، ورنہ اگر نائب کو ان میں سے کسی بات کا خود سے اندازا ہو تو پھر اشارہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 601):
"(استخلف) أي جاز له ذلك ولو في جنازة بإشارة أو جر لمحراب، ولو لمسبوق، ويشير بأصبع لبقاء ركعة، وبأصبعين لركعتين ويضع يده على ركبته لترك ركوع، وعلى جبهته لسجود، وعلى فمه لقراءة، وعلى جبهته ولسانه لسجود تلاوة أو صدره لسهو (ما لم يجاوز الصفوف لو في الصحراء) ما لم يتقدم، فحده السترة أو موضع السجود على المعتمد كالمنفرد (وما لم يخرج من المسجد) أو الجبانة أو الدار (لو كان يصلي فيه)
(قوله: ويشير إلخ) هذا إذا لم يعلم الخليفة، أما إذا علم فلا حاجة إلى ذلك، بحر (قوله: لسجود) أي لترك سجود، وكذا ما بعده، من المعطوف ح".
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144212201871
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن