بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نام کے اعتبار سے پتھر کا استعمال


سوال

میرے نام کا کون سا پتھر اچھا ہے ؟

جواب

 ستاروں، سیاروں اور ہاتھوں کی لکیروں کا انسانی زندگی کے بنانے یا بگاڑنے میں کوئی اثر نہیں، اسی طرح مخصوص پتھر بھی  انسانی زندگی پراثر انداز نہیں ہوتے، انسان کی زندگی کےمبارک یا نامبارک ہونے میں اس کے اعمال کا دخل ہے، نیک اور اچھے اعمال انسان کی مبارک زندگی اور برے  اعمال ناخوش گوار  زندگی کا باعث ہوتے ہیں،  پتھروں یا اعداد کو اثر انداز سمجھنا مشرک قوموں کا عقیدہ ہے، مسلمانوں کا نہیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ حجر اسود کو بوسہ دیتے وقت اس سے مخاطب ہو کر ارشاد فرماتے ہیں کہ: ” مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ تو پتھر ہے، نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان، اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا  تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا“، نئے مسلمان ہونے والے لوگوں  کے دلوں میں پتھروں کی تاثیر کا جاہلی عقیدہ مٹانے کے لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ  ان کے سامنے حجر اسود سےاس انداز میں گویا ہوئے۔

  لہذا   نام یا تاریخِ پیدائش کے حساب سےکسی پتھر کو متعین کرکے اس کے بارے میں یہ  اعتقاد ویقین رکھنا کہ یہ  پتھر میری زندگی پراچھے اثرات ڈالتا ہے یہ عقیدہ غلط ہے، اس عقیدے کے ساتھ انگوٹھی یا لاکٹ وغیرہ  میں پتھروں کا استعمال ناجا ئز ہے۔

صحیح مسلم میں ہے:

"حدثنا خلف بن هشام والمقدمى وأبو كامل وقتيبة بن سعيد كلهم عن حماد -قال خلف: حدثنا حماد بن زيد- عن عاصم الأحول عن عبد الله بن سرجس قال: رأيت الأصلع -يعنى عمر بن الخطاب - يقبل الحجر، ويقول: والله إنى لأقبلك وإنى أعلم أنك حجر، وأنك لاتضر ولاتنفع، ولولا أنى رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم قبلك ما قبلتك".

(الصحيح لمسلم،1/ 413،  كتاب الحج، باب استحباب تقبيل الحجر الأسود فى الطواف، ط: قديمي)

 شرح مسلم نووی میں ہے:

"وأما قول عمر رضي الله عنه: لقد علمت أنك حجر وأنى لأعلم أنك حجر، وأنك لاتضر ولاتنفع، فأراد به بيان الحث على الاقتداء برسول الله صلى الله عليه وسلم في تقبيله ونبه على أنه لولا الاقتداء به لما فعلته، وإنما قال: وأنك لاتضر ولاتنفع؛ لئلايغتر بعض قريبى  العهد بالاسلام الذين قد ألفوا عبادة الأحجار وتعظيمها ورجاء نفعها وخوف الضرر بالتقصير في تعظيمها، وكان العهد قريباً بذلك، فخاف عمر رضي الله عنه أن يراه بعضهم يقبله ويعتنى به فيشتبه عليه، فبين أنه لايضر ولاينفع بذاته، وإن كان امتثال ما شرع فيه ينفع بالجزاء والثواب، فمعناه أنه لا قدرة له على نفع ولا ضرر، وأنه حجر مخلوق كباقي المخلوقات التي لاتضر ولاتنفع، وأشاع عمر هذا في الموسم ليشتهرعنه في البلدان ويحفظه عنه أهل الموسم المختلفوا الأوطان والله أعلم".

(شرح النووي علي صحيح المسلم،(1/ 413)  كتاب الحج، باب استحباب تقبيل الحجر ط:قديمي)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144411102163

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں