بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز کے اندر سورہ فاتحہ میں ایاک نعبُد کے بجائے ایاک نعبَد (بفتح الباء) پڑھنا


سوال

اگر کسی نے نماز کے اندر سورہ فاتحہ میںایّاک نعبُد کے بجائے ایّاک نعبَد (بفتح الباء) پڑھا ،  اسی طرح انعمتَ علیھمکے بجائے انعمتَ ألیھم (عین کے بجائے ہمزہ)  پڑھا؛ تو یہ نماز واجب الاعادہ ہے یا نہیں؟ اگر واجب الاعادہ ہے تو اگر کسی نے اسی طرح بیس تیس سال نماز پڑھی ہو تو وہ کیا کرے؟

جواب

واضح رہے کہ نماز  میں تلاوتِ قرآن کریم کےلئے ضروری ہے کہ نماز پڑھنے والا شخص مخارج اور صفات کی رعایت رکھتے ہوئے قرآن کی تلاوت کرے، اگر کوئی شخص اپنے گمان میں صحیح مخارج ادا کر رہا ہو لیکن سننے والا یہ سمجھے کہ پڑھنے والا غلط مخارج ادا کر رہا ہےتو اس سے نماز میں کوئی فرق نہیں پڑتا،  تاہم اگر کوئی شخص قرآن کریم کی بہتر انداز میں اور اسی طرح مخارج اور صفات کی رعایت رکھتے ہوئے تلاوت پر قادر نہ ہو تو اگر دورانِ تلاوت مخارج اور صفات کے اعتبار سے ایسی غلطی کربیٹھے کہ جس سے تغیر فاحش نہ ہو تو ایسی صورت میں نماز ادا ہوجاتی ہے۔

زیرِ  نظر مسئلہ میں مذکورہ غلطی سے تغیر فاحش نہ ہونے کی بناء پر نماز فاسد نہیں ہوئی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين "میں ہے :

"ومنها القراءة بالألحان إن غير المعنى وإلا لا إلا في حرف مد ولين إذا فحش وإلا لا ،بزازية.

 (قوله بالألحان) أي بالنغمات، وحاصلها كما في الفتح إشباع الحركات لمراعاة النغم (قوله إن غير المعنى) كما لو قرأ - {الحمد لله رب العالمين} [الفاتحة: 2]- وأشبع الحركات حتى أتى بواو بعد الدال وبياء بعد اللام والهاء وبألف بعد الراء، ومثله قول المبلغ رابنا لك الحامد بألف بعد الراء لأن الراب هو زوج الأم كما في الصحاح والقاموس وابن الزوجة يسمى ربيبا.

(قوله وإلا لا إلخ) أي وإن لم يغير المعنى فلا فساد إلا في حرف مد ولين إن فحش فإنه يفسد، وإن لم يغير المعنى، وحروف المد واللين وهي حروف العلة الثلاثة الألف والواو والياء إذا كانت ساكنة وقبلها حركة تجانسها، فلو لم تجانسها فهي حروف علة ولين لا مد. [تتمة]

فهم مما ذكره أن القراءة بالألحان إذا لم تغير الكلمة عن وضعها ولم يحصل بها تطويل الحروف حتى لا يصير الحرف حرفين، بل مجرد تحسين الصوت وتزيين القراءة لا يضر، بل يستحب عندنا في الصلاة وخارجها كذا في التتارخانية. مطلب مسائل زلة القارئ".

 (کتاب الصلوۃ ، باب الامامۃ ،1/ 630،سعید )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406102025

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں