بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں لحنِ خفی کرنے والے امام کا حکم


سوال

 ہماری  مسجد کے امام صاحب ہر جہری نماز میں  لحن خفی کے ساتھ  قرآن پڑھتے ہے یعنی غنہ ، اخفاءغلط غلط مقامات  پرکرتے ہیں ، بار بار اُن کو بتایا جا رہا ہے  پھر بھی  وہ صحیح نہیں پڑھتے ہیں ، تو کیا ایسے امام کی اقتدا  جائز ہے یا نہیں؟  تھوڑی وضاحت فرما دیں۔

جواب

 واضح  رہے کہ  نماز میں   قراء ت کے دوران     ایسی فحش غلطی ہوجائے کہ قرأت میں لحنِ جلی کا ارتکاب لازم آجائے کہ اس  سے معنیٰ  بالکل فاسد ہوجائے توایسی صورت میں  نماز بھی  فاسد ہوجائے گی ،اور اگر غلطی اس نوعیت کی    ہو کہ اس میں لحن جلی کا ارتکاب لازم نہ آئے، یا لحن جلی تو ہو لیکن   معنیٰ کا فساد لازم  نہ آئے تو نماز فاسد نہیں ہوگی، البتہ ایسی مجہول  قراء ت کرنا جس میں غنہ، مد اور قواعدِ تجوید کی رعایت نہ رکھی جائے ، قرآن کے حسن و زینت کے خلاف ہونے کی وجہ سے مکروہ ہے،  لیکن اس طرح کی مجہول قرأت کرنے والے امام کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے،لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ امام کی اقتدا  میں نماز اداکرنا جائز ہے،  البتہ  ایسے امام کو چاہیے  کہ  مشق کر کے  اپنی قرأت کو درست کرنے اور خوش الحانی سے قرآن پڑھنے کی کوشش کرتا رہے، اس میں کسی قسم کا عار اور شرم  محسوس نہیں کرنی چاہیے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ومنها القراءة بالألحان إن غير المعنى وإلا لا إلا في حرف مد ولين إذا فحش وإلا لا ،بزازية.

 (قوله بالألحان) أي بالنغمات، وحاصلها كما في الفتح إشباع الحركات لمراعاة النغم (قوله إن غير المعنى) كما لو قرأ - {الحمد لله رب العالمين} [الفاتحة: 2]- وأشبع الحركات حتى أتى بواو بعد الدال وبياء بعد اللام والهاء وبألف بعد الراء، ومثله قول المبلغ رابنا لك الحامد بألف بعد الراء لأن الراب هو زوج الأم كما في الصحاح والقاموس وابن الزوجة يسمى ربيبا.

(قوله وإلا لا إلخ) أي وإن لم يغير المعنى فلا فساد إلا في حرف مد ولين إن فحش فإنه يفسد، وإن لم يغير المعنى، وحروف المد واللين وهي حروف العلة الثلاثة الألف والواو والياء إذا كانت ساكنة وقبلها حركة تجانسها، فلو لم تجانسها فهي حروف علة ولين لا مد. [تتمة]

فهم مما ذكره أن القراءة بالألحان إذا لم تغير الكلمة عن وضعها ولم يحصل بها تطويل الحروف حتى لا يصير الحرف حرفين، بل مجرد تحسين الصوت وتزيين القراءة لا يضر، بل يستحب عندنا في الصلاة وخارجها كذا في التتارخانية. مطلب مسائل زلة القارئ".

(ج:1، ص:630، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144505100199

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں